تحریر : غلام رضا کہنے والے عمران خان کو کیا کچھ نہیں کہتے مگر تحریک انصاف والوں کا بھی ماننا یہی ہے کہ خان صاحب بغیر سوچے سمجھے کسی پر بھی الزامات لگا کر یوٹرن لے لیتے ہیں، کس سیاسی رہنما کے بارے میں کب، کہاں اور کیسی زبان استعمال کرنی چاہئے خان صاحب کو اس کا احساس تک نہیں، سپریم کورٹ نے بھی ناشائستہ زبان استعمال کرنے پر طلب کیا اور وہاں جاکر موصوف نے معافی مانگ لی، میرے خیال سے کوئی بھی سیاستدان عمران خان کی زبان سے محفوظ نہیں رہا، الزامات کا سلسلہ بھی کافی پرانا چلا آ رہا ہے۔
کبھی انتخابات چرا لینے کا الزام تو کبھی مک مکاکا،سپریم کورٹ کی طرف سے حکومت کو کلین چٹ مل جانے کے باوجود بھی ابھی تک دھاندلی کا رونا رویا جا رہا ہے،ذاتی حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔عمران خان اپنے آج کے دوست شیخ رشید کے ساتھ ماضی میں ہتک آمیز رویہ اختیار کرچکے ہیں اور دونوں کے درمیان ہونے والی گالم گلوچ کو ابھی تک کوئی نہیں بھولا،عمران خان نے بچوں کو بھی نہ چھوڑا،بلاول اور مریم پر بھی ذاتی حملے کئے،خیر آج کے موضوع پر آیا جائے تو میرے مطابق عمران خان شہباز شریف پر کرپشن کے الزامات لگاکر پھنس چکے ہیں،عمران خان کبھی بھی شہباز شریف کیخلاف لگائے گئے الزامات ثابت نہیں کر پائیں گے۔
پتہ نہیں کیوں عمران خان کسی کی باتوں میں کیسے آگئے کیونکہ عمران خان ہمیشہ سے ہی شہباز شریف کے طرز سیاست کو پسند کرتے رہے ہیں اور کئی مرتبہ خادم اعلیٰ کے اقدامات کی تعریف بھی کرچکے ہیںوہ اور بات ہے چھپ چھپ کر میڈیا کے سامنے نہیں۔کیس عدالت میں چلا اور سماعت ہوتی رہی تو جیت شہباز شریف کی ہی ہوگی کیونکہ شہباز شریف اس شخص کا نام ہے جو کرپشن کرتا ہے نہ ہی کسی کو کرنے دیتا ہے۔عمران خان نے شہباز شریف پر سنگین مگر جھوٹے الزامات لگائے اور وہ یہ کہ کینیڈین شہری جاوید صادق شہباز شریف کے فرنٹ مین ہیں،بقول چیئرمین پی ٹی آئی کے جاوید صادق نے 4 منصوبوں میں 26ارب 55کروڑ کی کرپشن کی اور یہاں ہی اکتفا نہ کیا بلکہ یہ بھی کہہ ڈالا کہ نیو اسلام آباد کا کنٹریکٹ بھی جاوید صادق کو ہی ملا ہے۔
خیر کنٹریکٹ کسی نہ کسی کو تو ملنا ہی تھا۔الزامات کا جواب دینے کیلئے بزنس مین جاوید صادق بھی میدان میں آئے اور ان کا کہنا تھا کہ میں شہباز شریف نہیں چینی کمپنی کے ساتھ کام کرتا ہوںاور شہباز شریف نے کمپنی کو کوئی ٹھیکہ بھی نہیں دیا،اسلام آباد ایئر پورٹ کے کنٹریکٹ بارے جاوید صادق نے موقف اختیار کیا کہ وہ پیپلز پارٹی کے دور کا ہے،قائداعظم سولر منصوبے سے بھی کوئی تعلق نہیںجبکہ ارفع کریم ٹاور منصوبہ پرویز الہیٰ دور کا ہے۔جاوید صادق نے تو سچی اور کھڑی باتیں کر دیں اس کے بعد تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان جھوٹے آدمی ہیں۔
Shahbaz Sharif
خیر عمران کی مشکلات میں تو ابھی شہباز شریف اضافہ کرینگے کیونکہ وہ خود میدان میں آچکے ہیں اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینگے۔شہباز شریف نے عمران خان کے الزامات کے جواب میں 26ارب 55کروڑ روپے کا دعویٰ دائر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے الزامات کا بھرپور جواب دیا،عمران خان کے لگائے گئے الزامات میں حقیقت ہوتی تو شہباز شریف کبھی ہاتھ جوڑ کر عدالت سے درخواست نہ کرتے کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں۔الزامات کا سلسلہ تو کہیں جا کر رکنا چاہئے ایک دفعہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا ہی چاہئے اگر کوئی واقعی کرپٹ ہے تو اسے سزا ملنی چاہئے نہیں تو الزامات لگانے والے کو عبرت کا نشان ضرور بنانا چاہئے تاکہ یہ گندا سلسلہ تھم جائے۔کہنے والے تو کہتے ہیں 2نومبر قریب آتے ہی عمران خان کی حالت غیر ہو چکی ہے اور وہ ہر حال میں حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں چاہے کوئی غیر جمہوری اقدام ہی کیوں نہ اٹھایا جائے۔
عمران خان کو چاہئے کہ ملک کو انتشار کا شکار نہ کریں،حکومت نے 2014 کے دھرنے میں عمران خان کو ڈھیل نہ دی ہوتی تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے اب کی بار حکومت کو چاہئے کہ انتشار یا اسلام آباد پر چڑھائی کی صورت میںقانون کے مطابق کارروائی کرے،ملکی مفاد سب سے پہلے ہونا چاہئے ایک ایسا شخص جسے ملکی مفاد عزیزنہ ہو اس کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں کی جانی چاہئے،حکومت کو ایک دو دنوں میں چاہئے کہ بغیر سوچے سمجھے عمران خان پر انتشار پھیلانے اور دارلحکومت کو یرغمال بنانے کی منصوبہ بندی کرنے پر مقدمہ درج کرائیں تاکہ کل کو کوئی اور عوامی مینڈیٹ کی توہین نہ کر سکے۔عمران خان پتہ نہیں کس دنیا میں رہ رہے ہیں چار سال ہونے کو ہیں دھاندلی کا رونا رو رہے ہیں۔
عوام نے ووٹ دیئے ہیں تو ہی نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں اور وزیراعظم کو پانچ سال کیلئے منتخب کیا گیا ہے۔ آئین اور قانون کسی بھی شخص کو عوامی مینڈیٹ کی توہین کی اجازت نہیں دیتا،خان صاحب حکومتی کاموں میں روڑے نہ اٹکاتے تو ملک سے اب تک کئی بحران ختم ہو جانے تھے مگر انہوں نے کے پی کے میں کام کیا نہ ہی وفاق کو کرنے دیا مگر اس کے باوجود بھی وفاق کی کارکردگی بہت اچھی نہیں تو اچھی ضرور رہی ہے۔عمران خان ،شہباز شریف اور برنس مین جاوید صادق کی باتیں سننے اور موقف جاننے کے بعد کوئی بھی باشعور آدمی بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔عمران خان کو بھی پریس کانفرنس کے بعد علم ہو چکا ہوگا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔
خان صاحب ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
اسلام آباد میں دفعہ 144 کے تحت جلسے جلسوس نہیں ہوسکتے جبکہ ہائیکورٹ نے بھی انتظامیہ کو شہر بند کرنے سے روک دیا گیا مگر پھر بھی خان صاحب کا کہنا ہے کہ ہم ہر صورت اسلام آباد بند کر کے رہیں گے ہمارے کارکن رکنے والے نہیںجو شخص عدالتوں کا حکم نہیں مانتا اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔مجھے قوی امید ہے عمران خان آج کے بعد کبھی بھی کسی پریس کانفرنس یا جلسے حتی کہ اگر 2نومبر کو اسلام آباد تک پہنچ بھی گئے تو وہاں بھی شہباز شریف پر الزامات نہیں لگائینگے،عمران خان کے الزامات کے بعد جس طرح دونوں شخصیات سامنے آئی اور اپنا دفاع کیا اس کے بعد عمران خان اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہ پائے۔