تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری شہباز شریف صاحب نے کئی بار جذبات میں آکر کہا کہ ملکی حالات جس ڈگر پر جا رہے ہیں تو میں جلد خونی انقلاب دیکھ رہا ہوں خونی انقلاب تو کمیونسٹ ممالک کی روایت ہے جس پر کروڑوں افراد تہ تیغ کردیے جاتے ہیں مگر مسلمانوں کے ممالک میں جب بھی انقلاب آیا تو وہ پرامن اسلامی انقلاب ہو گا یعنی خدا کی حکومت خدا کی زمین پر قائم ہو جائے گی۔خدا تعالیٰ نے ہمیں زمین پر اسی لیے بھیجا تھا کہ جائو اور وہاں میری حکمرانی قائم کرو۔ یعنی میرے احکامات کے مطابق زندگی گزارو اور مل جل کر اکٹھے ڈسپلن کے تحت رہنے کے لیے ریاست کا تصور بھی اسلامی ریاست کی صورت میں عزوجل کے فرمان ہیں اسی لیے پیغمبر بھیجے گئے اور آخر میں نبیۖ آخر الزمان تاجدار ختم نبوت تشریف لائے اور نبوت ان پر ختم کر ڈالی گئی۔
پاکستان بننے پر بھی یہی نعرہ تھا کہ نیا ملک اسلامی ریاست ہو گی مگر قائد اعظم کی وفات کے بعد ہی سیکولر و کمیونسٹ عناصر ،انگریز کے پالتو جاگیرداروں ،وڈیروں نے ہر برسر اقتدار گروہ میں گھس کر اپنا قبضہ جمالیا جو کہ آج تک جاری ہے پہلے تو فوجی آمریت رہی اور ایسے افراد آمروں کے بوٹ پالش کرتے اور ان کی تابعداریاں کرتے رہے پھر بھٹو صاحب نے انقلابی نعرے لگائے مگر 1977تک تمام وڈیرے جاگیردار پی پی پی میں گھس چکے تھے اور ہر اہم عہدہ صوبوں کے گورنر وزارت اعلیٰ پر اپنا قبضہ جما لیا 1977کے انتخابات میں پی پی پی کے نامزد کردہ امیدواروں میں 95فیصد ٹوڈی جاگیردار تھے ان کے مقابلے میں پی این اے کے تحت نظام مصطفیٰۖ کی تحریک چلی مسلمانان پاکستان نے جلسے جلوسوں میں اپنی جانیں قربان کیں مگر ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے قابض ہوتے ہی ائیر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان اور الشاہ احمد نورانی کی پارٹیوں کے علاوہ سبھی اس کے ساتھ اقتدار میں شامل ہو کر وزاتوں کے مزے لوٹنے لگے۔
پھر کئی سالوں بعد اسلامی جمہوری اتحاد اور متحدہ مجلس عمل کے اکٹھ بنتے رہے جن پر مسلمانوں نے دوبارہ اعتماد کیا انہیں منتخب کیا مگر وہ بھی اسلامی نظام نافذ نہ کرسکے اورٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ گئے ۔اب پھر متحدہ مجلس عمل بحال ہو چکی ۔مگر عوام شاید کچھ اور ہی سوچ اختیار کیے ہوئے ہیں وہ عمران خان کو مسیحا سمجھ بیٹھے تھے مگر اس کے آگے بھی مقتدر باندی ہاتھ جوڑے کھڑی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ سبھی پارٹیوں سے نکل نکل کر جاگیردار وڈیرے اور ڈھیروں منافع خور صنعتکار اس کی پارٹی کے اہم عہدوں پر قابض ہو چکے ہیں ۔2018کے انتخابات میں وہی ٹکٹیں بانٹیں گے اور”اندھا ونڈے ریوڑیاں مڑ مڑ کے اپنیاں نوں ” کے مصداق مذکورہ سود خور نودولتیے سرمایہ دار رہنما اپنی ہی مخصوص کلاس کو ٹکٹیں الاٹ کرڈالیں گے اور پی ٹی آئی ورکر ان کے جلسوں میں دریاں اکٹھی کرنے کرسیاں بچھانے اور نعرے لگاتے رہ جائیں گے ویسے آئندہ انتخاب بھی اب تک کے حالات کے مطابق روپے پیسے کا خوفناک کھیل بنتا نظر آرہا ہے ووٹوں کی بولیاں لگیں گی جو زیادہ مال خرچ کرے گا وہی کامیاب ٹھہرے گا !عمران خان کا یہ تاثر قائم ہو گیا ہے کہ وہ” لائی لگ ” بن چکا ۔ اردگرد کے نزدیکی لوگ جو کانوں میں بات بھر دیتے ہیں اسی طرف جھکائو کر لیتا ہے اس کے کئی بیانات منجھے ہوئے سیاستدان کے نہیں ہوتے ۔طاہرالقادری کی طرف سے منعقدہ اپوزیشن جماعتوں کا حالیہ اجتماع جو کہ ماڈل ٹائون کے مقتولین پر احتجاج کے لیے منعقد کیا گیا وہ شو مکمل فلاپ رہا کہ خود پی ٹی آئی کے راہنمائوں نے بھی ٹی وی پر اس کا اقرار کر لیا۔
پھر عمران خان شیخ رشید کے پیچھے چل پڑے اور اس کی طرح تقریر میں پوری اسمبلی کو ہی لعنتی قرار دے ڈالا جس کا فوری رد عمل ہوا اور اسمبلی نے ان کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے قرار داد مذمت منظور کر لی تو پھر بھی عمران خان نے معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی بجائے مزید ” ٹھوکا” لگا دیا کہ میں نے تو نرم الفاظ استعمال کیے ہیں میں تولعنتی سے بھی سخت الفاظ استعمال کرنا چاہتا تھا مگر کسی طور پر رک گیا در اصل تو ملکی سیاست کے سارے ہی بڑے پہلوان و کھلاڑی آمدہ 2018کے انتخابات میں مکمل ناکام ہوجانے کے خوف کی وجہ سے اب دوسروں پر الزامات کی بارش کرنے حتیٰ کہ گالم گلوچ پر اتر چکے ہیں اس طرح تقریباً سبھی مقتدر سیاسی جماعتوں کے راہنمائوں نے انتخابی دنگل نما حمام میں ایکدوسرے کو الف ننگا انتخابات سے قبل ہی کر ڈالا ہے اب عوام کا کسی شخصیت پر بھی اعتبار جمتا نظر نہیں آتا کہ سبھی آزمائے ہوئے مہرے ہیں ایم ایم اے بھی آزمائی گئی تھی اور پی پی پی ن لیگ اور پی ٹی آئی سب اپنا اپناکھیل کھیل چکی ہیں اور سیاسی میدانوں سے ہار کر آئوٹ ہو چکے ہیں۔
اب تو غربت اور مہنگائی کے جن کے ڈسے ہوئے بیروزگار افراد جن کی غریب بچیوں کو عدم تحفظ کی وجہ سے کمسن عمری میں ہی درندوں نے روند ڈالا ہے اور وہ بھوکوں مرتے خود کشیاں اور خودسوزیاں کرنے پر مجبور ہیں وہی اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے اور نبی اکرم ۖ پر درود مبارک کا ورد کرتے ہوئے موجودہ ظالم سماج کے خلاف تحریک کی صورت میں پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچیں گے اور بذریعہ بیلٹ (نہ کہ بلٹ) اللہ اکبر کی ہی تحریک کے باکردار و قابل افراد کو منتخب کرکے ایسا انقلاب برپا کریں گے جس میں مہنگائی غربت بیروزگاری بد امنی بے انصافی کے بت مکمل ٹوٹ جائیں گے اور ملک بنتے وقت ان کی خواہشات کے مطابق یہاں اسلامی نظام کی بہاروں سے ہمکنار ہوسکیں گے معصوم کلیوں جیسی بچیوں پر مظالم بند ہوں گے صنعتکار سرگودھا کی طرح مزدوروں پر مظالم نہ کرسکیں گے پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ کرکے سینکڑوں بچوں کو ہلاک اور کراچی میں مل کے اندر 200افراد کو جلا ڈالنے اور دن دیہاڑے وکلاء کوبھسم کر ڈالنے جیسے ظالم کیفر کردار تک پہنچیں گے ظلم کا راج ختم ہو کر اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ ہو گا تمام مسالک فرقے ایکدوسرے پر تنقیدوں کے نشتر نہیں چلا سکیں گے اور لبیک یارسول اللہ اور حافظ سعید کی ملی مسلم لیگ و ایم ایم اے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر اللہ اکبر کی تحریک کا جھنڈا بلند کرنا ہو گا تبھی بڑے جاگیردار وڈیرے اور ڈھیروں منافع ہڑپ کرنے والے صنعتکار شکست سے دو چار ہوں گے۔