اسلام آباد (جیوڈیسک) شہباز شریف کے ملک سے باہر اور نواز شریف کے جیل واپس جانے کے بعد کئی حلقے اب یہ سوال کر رہے کہ مسلم لیگ کی قیادت کون کرے گا اور یہ کہ اگر مریم صفدر پارٹی چلاتی ہیں تو کیا وہ ماضی کی طرح سخت لائن اختیار کریں گی یا نہیں۔؟
کئی سیاست دانوں تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے خیال میں اب مسلم لیگ نواز کی قیادت حقیقی معنوں میں مریم نواز شریف کے ہاتھ میں ہوگی اور وہ سخت لائن اختیار کریں گی۔ واضح رہے کہ ن لیگ نے حال ہی میں کئی نائب صدور کا تقرر کیا ہے، جس میں حمزہ شریف اور مریم صفدر کو بھی یہ عہدہ دیا گیا ہے۔ گو کہ یہ عہدہ شریف فیملی کے دو اہم افرادکے پاس ہے لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ قیادت کا اصل سہرا عملی طور پر مریم کے سر پر ہی رہے گا۔
مریم نواز نے آج طویل عرصے کے بعد سیاسی ٹوئیٹس کی ہیں۔ ان میں انہوں نے طاقت ور حلقوں کے بجائے پی ٹی آئی کو ہدف بنایا ہے، جس سے یہ تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ وہ حمزہ کے مقابلے میں زیادہ متحرک ہو کر کام کریں گی۔ سابق وفاقی وزیر برائے بندرگاہ و جہاز رانی میر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ مریم انتہائی باصلاحیت سیاست دان ہے۔ اور وہ بھی اپنے باپ کے بیانیے کو آگے بڑھائیں گی،’’مریم کے پاس اپنے والد کے وفاداروں کی ٹیم ہے اور وہ سب سخت گیر ہیں، جن کا سویلین برتری اور پارلیمنٹ کی برتری پر پکا یقین ہے۔ تو میرے خیال میں وہ سخت لائن ہی لے گی۔ تاہم یہ اتنی سخت نہیں ہوگی، جتنی ماضی میں تھی۔ میرا خیال ہے کہ فی الوقت وہ طاقت ور حلقوں کو نہیں چھیڑے گی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ نواز شریف کے بیانیے سے پیچھے ہٹے گی۔‘‘
میر حاصل بزنجو کے بقول نواز شریف کا بیانیہ ملک میں اب بھی مقبول ہے،’’ہمارےمیڈیا نے کل کے جلوس کا بائیکاٹ کیا لیکن میری اطلاعات یہ ہیں کہ جلوس بہت بڑا تھا، جس کو پہنچنے میں چار سے پانچ گھنٹے لگے۔ میری نواز شریف سے کچھ دنوں پہلے بات ہوئی ہے، وہ بہت ہی پر عزم ہیں اور اپنے بیانیے پر قائم ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مریم کو معلوم ہے کہ ن لیگ کی سیاسی بقا بھی اسی بیانیے میں ہے۔ اس لیے وہ اسے آگے بڑھائیں گی۔‘‘
میر حاصل بزنجو کا مزید کہنا تھا کہ مریم حمزہ سے بہت زیادہ بہتر سیاسی رہنما ہے اور میرے خیال میں پارٹی کی اکثریت بھی اس کی ساتھ ہے تو وہ ہی بہتر رہنما ثابت ہوگی۔
ملک میں کئی حلقوں کا خیال ہے کہ مریم نواز ماضی کی طرح سخت لائن نہیں لیں گی اور یہ کہ نواز شریف کا بیانیہ دہرانے سے کترائیں گی۔ تاہم مسلم لیگ کا کہنا ہے کہ پارٹی نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ کھڑی ہے اور مریم اسے آگے بڑھائیں گی۔
مسلم لیگ کے رہنما، سابق وفاقی اور نواز شریف کے قریبی ساتھی مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ مریم نواز اپنے والد کے بیانیے کو ہی آگے بڑھائے گی،’’مریم کو کوئی ڈر خوف نہیں، وہ تو اپنے والد کے ساتھ جیل جانے کے لیے وطن واپس آئی۔ اس کو خوف ہوتا تو کیا وہ ایسا کرتی۔ اس نے تو کوئی قصور بھی نہیں کیا ہے اور نہ کوئی جرم۔ اصل جرم تو علیمہ باجی نے کیا، جن کی جائیدادیں بر آمد ہوئی۔ لیکن اس کے باوجود مریم نے ساری صعوبتیں برداشت کیں اور وہ اب بھی ماضی کی طرح نواز شریف کے بیانیے کو آگے بڑھائے گی، جو آئین کی بالادستی اور سویلین برتری کی بات کرتا ہے اور جو یہ کہتا ہے کہ حلف کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے اور سویلین کے حقِ حکمرانی کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔‘‘
تاہم ن لیگ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ مریم بالکل بھی لڑنے کے موڈ میں نہیں ہیں اور نہ ہی نواز شریف کوئی تصادم چاہتے ہیں۔ ن لیگ کی پوری تگ و دو نواز شریف کو جیل سے بچانے پر لگی ہوئی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی کا دعویٰ ہے،’’شریف فیملی میں اس وقت یہ بحث ہو رہی ہے کہ کس طرح نواز شریف کو بچایا جائے۔ نواز شریف کو اس بات کا احساس ہے کہ اس نے فیملی کو بنایا اور یہ کہ اب فیملی کے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو ریلیف دلوائیں۔ تاہم وہ اس طرح ریلیف نہیں لینا چاہتے، جس سے لگے کہ انہوں نے کوئی ڈیل کی ہے۔ تو میرے خیال میں اس ریلیف کے لیے مریم نواز سخت لائن نہیں اختیار کریں گی۔‘‘
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
ملک میں یہ تبصرے ہورہے ہیں کہ شریف فیملی کو یہ ریلیف اسٹیبلشمنٹ دلا رہی ہے لیکن اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے،’’نہ حکومت اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ ان کو ریلیف دلوانے میں مدد دے رہی ہے۔ ریلیف ان کو عدالتوں کی طرف سے مل رہی ہے، جس کی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ہم عدالتی فیصلوں پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہم پر توہین عدالت لگ جائے گا۔‘‘
کچھ تجزیہ نگار بھی اسحاق خاکوانی کی اس بات سے متفق نظر آتے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں مریم اب محتاط ہو کر بات کریں گی،’’میرا نہیں خیال کہ وہ کوئی سخت لائن لیں گی کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ وہ ضمانت پر ہیں ۔ اگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے تصادم کی راہ اختیار کی، تو ان کے لیے سیاست کرنا مشکل ہو جائے گا اور اس سے نواز شریف کو بھی نقصان ہو گا، اور میرا نہیں خیال کہ وہ نواز شریف کوا س موقع پرنقصان پہنچانا چاہیں گی۔‘‘