تحریر: ساجد حبیب میمن دسمبر آگیا اور سانحہ پشاور کے 150 معصوم بچوں کی شہادت کی یادوںکے زخم پھر سے تازہ ہو گئے۔ صبر کاپیمانہ پھر سوز و غم سے لبریز ہو گیا، آنکھ پھر سے اشکبار اور زبان ماتم خواںہو گئی۔ قوم 16 دسمبر 2014 کا دن کبھی نہیں بھولے گی۔ یہ وہ دن تھا جب سرسبزہلالی پرچم ڈیڑھ سو نونہالانِ وطن کے لہو سے سرخ ہو گیا۔ درندوں نے 150 مائوں کی گودیں اجاڑ دیں ، باپوں سے انکے لختِ جگر اور بہنوں سے انکے چاند جیسے بھائی چھین لئے ۔ یہ وہ دن تھا جب نام نہاد تحریکِ طالبان کے درندہ صفت دہشت گردوں نے قوم کے مستقبل پر حملہ کیا۔ یہ وہ دن تھا جب سرزمین پاکستان پر طلوع ہونے والا سورج بھی اشکبار ہو کر ڈوبا اور ننھے شہیدوں کے خون سے لت پت پشاور کی زمین کی سرخی چاند تک جا پہنچی۔
اس بدخت رات کے ستارے بھی ماتم کرتے رہے۔ یہ وہ دن تھا کہ جس شام پرندے اپنے گھونسلوں میں دبک کر بیٹھ گئے اور دہشت گردوں کی درندگی سے خدا کی پناہ مانگتے رہے۔ یہ وہ دن تھا جب دہشت گردوں نے قوم کے معصوم بچوں اور نوجوان طلباء پر بزدلانہ وار کرکے قوم کو للکارا۔ یہ وہ دن تھا کہ جس نے پوری قوم کو دہشت گردوں کے خلاف متحد کر دیا۔ یہ وہ دن تھا جس نے دہشت گردی کی لعنت میں گرے ہوئے پاکستان کو ایک نیا نصب العین دیا۔ پوری قوم اور افواجِ پاکستان کو دہشت گردی کی لعنت کو ہمیشہ کے لئے سرزمین پاک سے ختم کرنے کے لئے ایک نیا حوصلہ دیا۔ آج اسی دن اور انہی پھولوں کی شہادت کی وجہ سے قوم دہشت گردی کے عذاب سے بڑی حد تک محفوظ ہو چکی ہے۔ آرمی پبلک سکول کے بچوں اور اساتذہ کی قربانی نے پاکستان کو ایک نئی زندگی دی ہے۔قوم نے دہشت گردی کو عبرتناک شکست دے کر امن و سکون حاصل کر لیا ہے اور یہ قوم آرمی پبلک سکول کے شہداء کو سلام پیش کرتی ہے۔
Peshawar Incident Shaheed
جہاں یہ دسمبر 16 دسمبر 2014 کے المناک حادثہ کی یاد لے کر آیا ہے وہیں یہ 150 شہید بچوں کی یاد میں تڑپتی مائوں کے درد کی تسکین کا سامان بھی لے کر آیا ہے۔ پاک فوج نے سات حملہ آوروںکو تو اسی روز واصلِ جہنم کر دیا تھا لیکن اس بربریت کی منصوبہ بندی کرنے والوں اورسفاکیت کا حصہ بننے والوں کا انجام ابھی باقی تھا۔ رواں ماں یعنی 3 دسمبر2015 کو کوہاٹ میں سانحہ پشاور میں ملوث چار دہشت گردوں، مجیب الرحمن الیاس علی الیاس نجیب اللہ، سبیل الیاس یحییٰ، حضرت علی اور مولوی عبدالسلام کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ان درندوں کو گزشتہ ماہ آرمی ٹرائل کورٹ نے پھانسی کی سزا کا حکم دیا تھا۔ ان جانوروں کے نام ایسے ہیں جیسے یہ خلیفہ ، ولی یا پیغمبر ہوں۔ یہ وحشی پیارے اسلامی ناموں کی توہین کے بھی مرتکب ہوئے ہیں۔ یقینا ان وحشیوں کے انجام سے شہیدوں کی مائوں کو تسکین ضرور ملی گی۔
آرمی پبلک سکول پشاور کے ننھے شہیدوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر قوم و ملت پر احسان کیا ہے۔ اس حادثہ کے بعد سیاسی و عسکری قیادت نے ایک نئی امنگ کے ساتھ دہشت گردوں پر کاری ضرب لگانے کا فیصلہ کیا۔ حکومت کی طرف سے بہت سے عملی اقدامات کئے گئے جن کے نتائج آج ملک کے اندر امن و امان کی بحالی کی صورت میں نظر آرہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے 17 دسمبر 2014 یعنی افسوسنا ک واقعہ کے اگلے ہی روز افغانستان کا دورہ کیا اور افغان قیادت کو افغانستان سے پاکستان آکر دہشت گردی کرنے والے طالبان کے خلاف کاروائی کرنے کا حتمی اور دوٹوک پیغام دیا۔
Imran Khan Dharny
سانحہ سے قبل سیاسی جماعتیں مفادات کی خاطر ملکی امن و سکون دائو پر لگا چکی تھیں۔ اس واقعہ نے عمران خان کو دھرنے ختم کرنے پر مجبور کر دیا اورملک کو سیاسی بے چینی سے چھٹکارا مل گیا۔ تمام سیاسی جماعتوں اور آرمی کی قیادت نے مل بیٹھ کر دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے لائحہ عمل پر غور کیا اور نیشنل ایکشن پلان معرضِ وجود میں آیا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت بہت سے سخت اور ناگزیر فیصلے کئے گئے۔ 21 ویں آئنی ترمیم عمل میں لائی گئی جس کے ذریعے آرمی ٹرائل کورٹس کو قانونی حیثیت دی گئی۔
2014 سے پہلے ہزاروں دہشت گرد گرفتار ہوئے لیکن کمزور پراسیکیوشن کا فائدہ اٹھا کر وہ قانون کی گرفت سے بھاگ جاتے تھے۔آرمی کورٹس کی بدولت دہشت گردوں کے تیز ترین ٹرائل کی رہ ہموار ہوئی اور اب تک درجنوں دہشت گرد آرمی ٹرائل کورٹس کے فیصلوں کی بدولت اپنی سزا بھگت چکے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت موبائل سمز کی بائیو میٹرک ویریفکیشن مکمل کروائی گئی۔دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں میں شدید تیزی لائی گئی۔بھاگنے والے دہشت گردوں کا پیچھا کیا گیا۔ مدرسہ جات کی نئے سرے سے تفتیش کی گئی اور دہشت گردی میں معاون ثابت ہونے والے تمام عناصر کے گرد دائرہ تنگ کر دیا گیا۔
ملک کے اندر کام کرنے والی این جی اوز کی نئے سرے سے رجسٹریشن اور کڑی نگرانی شروع کر دی گئی۔ بعض بیرونی و اندرونی این جی اوز ملکی مفاد کے خلاف کام کر رہی تھیں اور قومی نوعیت کے اہم معاملات کی خفیہ اطلاعات پاکستان کے دشمن ممالک کو فراہم کر رہی ہیں۔ کچھ این جی اوز تو براہِ راست دہشت گردوں کی معاونت کرتی رہی ہیں۔ ان این جی اوز کو قانون کے دائرے میں لایا گیا۔ وزارتِ داخلہ کی طرف سے ملک کی خفیہ ایجنسیوں اور قومی سلامتی کے اداروں کی کوآرڈینیشن کوبھی بہتر بنایا گیا۔اس کے علاوہ پاکستان کے اندر رائ، سی آئی اے اور موساد کے ایجنٹوں کے خلاف بھی خفیہ آپریشن کئے گئے اور پاکستان کے دشمنوں کی خفیہ سرگرمیاں محدود کر دی گئیں۔ آپریشن ضربِ عضب کا دائرہ کار جنوبی وزیرستان سے بڑھا کر شمالی وزیرستان اور پورے ملک تک پھیلا دیا گیا۔
Raheel Sharif
آرمی چیف نے واضح طور پر اعلان کر دیا کہ دہشت گردجہاں بھی چھپیں گے انکو ڈھونڈ کر نشانہ بنایا جائے گا اور انہوں نے عملی طور پر ایسا کر کے دکھایا۔سابقہ فوجی قیادت کے برعکس جنرل راحیل شریف نے اچھے اور برے طالبان کی تفریق ختم کر دی اور تمام مسلحہ گروہوں کے خلاف کاروائی کی۔ حکومت کی طرف سے دوسرا سب سے اہم فیصلہ سزائے موت پر پابندی اٹھانا تھا۔ مغربی دبائو پر پاکستان میں 2008 ء سے سزائے موت پرپابندی تھی اس لئے دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر اس چھوٹ کا فائدہ اٹھارہے تھے۔ اے پی ایس سانحہ کے دوسرے روز ہی وزیراعظم پاکستان نے دہشت گردی کیسز میں سزائے موت پر پابندی اٹھا دی اور اب تک سینکڑوں دہشت گردوں کوتختہ دار پرلٹکا دیا گیاہے۔
یہ وہ سارے اقدامات تھے جو سانحہ پشاور کے ردِعمل کے طور پر ریاست کو اٹھانے پڑے اور ان ناگزیر اقدامات کے لئے آرمی پبلک سکول پشاور کے شہید بچوں اور اساتذہ کی قربانی متحرک کار بنی۔ میں قوم کے ان شہید بچوں کو قوم کا محسن سمجھتا ہوں۔ شاید اگر وہ قربانی نہ دیتے تو قوم بے حسی اور سیاست دان حوسِ اقتدار کی لت میں بہت آگے نکل جاتے اور خدانخواستہ واپسی کا راستہ نہ رہتا ہے۔میں آرمی پبلک سکول کی شہید پرنسپل طاہرہ قاضی کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جس کو ایس ایس جی کمانڈوز دہشت گردوں کے سے بچا لائے تھے لیکن وہ ننھے بچوں کو بچانے واپس سکول کے انتظامیہ بلاک میں چلی گئیںجہاں وہ شہید ہو گئیں۔
Sajid Habib Memon
تحریر: ساجد حبیب میمن (صدائے حق) ترجمان، آل پاکستان میمن یوتھ موبائل: 03219292108 ای میل:apmykhi@gmail.com