سیّدا لشہداء حضرت امام حسین کا مطلوب و مقصود نانا کے دین کی سلامتی تھا۔ آپ نے شہادت قبول کر لی لیکن یزید کی بیعت نہیں کی۔ خانوادۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دریائے فرا ت کا پانی بند کرنے والے مسلمان ہی تھے اور اُنہیں شہید کرنے والے بھی مسلمان جو نماز، روزے میں بھی کوتاہی نہیں کرتے تھے اور شریعت کے پابند بھی تھے اور شنید ہے کہ یزید لعین تو حافظِ قُرآن بھی تھا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا عالمِ اسلام کا کوئی مفتی، کوئی عالم میدانِ کربلا میں ہلاک ہو جانے والے یزیدی فوج کے سپاہیوں کو شہید کہتا ہے یا کہہ سکتا ہے؟۔ اگر جواب نفی میں ہے تو چار ہزار فوجیوں اور چالیس ہزار بے گناہ بوڑھوں، بچوں، جوانوں اور عورتوں کا قاتل حکیم اللہ محسود شہید کیسے ہو گیا ؟۔اور ہزاروں معصوم بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے قتل میں ملوث ہونے والے طالبان کو یزیدی فوج کیوں نہ قرار دیا جائے؟۔
دینِ مبین کا واجبی سا علم رکھنے کے باوجود میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ بظاہر مسلمان عبداللہ ابنِ ابی واصلِ جہنم ہوا اور اُس جیسے اور بھی بہت سے کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے ”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے” ۔ اور حکمت کی عظیم ترین کتاب میں درج کر دیا گیا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم تمہیں بتائیں کہ اِن میں سب سے زیادہ بد نصیب کون ہے ؟۔وہ کہ جس کی عبادتیں ہم روزِ قیامت اُس کے مُنہ پر دے ماریں گے (مفہوم)۔میرے لیے امیرِ جماعتِ اسلامی سیّد منور حسن انتہائی محترم ہیں ۔اُن کا تقویٰ ، پرہیز گاری اور حب الوطنی شک و شبہ سے بالا تر ہے اور منافقت ، جھوٹ اور دوغلے پَن سے وہ کوسوں دور ہیں لیکن وہ ہر وقت ”حالتِ جذب” میں رہتے ہیں۔
سیاسی چالوں سے کوسوں دور سیّد صاحب سے جب بھی کسی اینکر نے انٹر ویو کیا وہ سیّد صاحب کے غیض و غضب کا نشانہ بنا ۔۔سیّد صاحب بضد ہیں کہ حکیم اللہ محسود شہید ہے لیکن جب اُن سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیسے تو اُن کا جواب کبھی بھی تشفی آمیز نہیں ہوتا ۔اُن کے خیال میں چونکہ حکیم اللہ محسود مذاکرات کے لیے تیار ہو گیا تھا اِس لیے وہ شہید ہے۔ ہمارے پاس وزیرِ داخلہ اور وزیرِ اطلاعات کے ایک دو بیانات کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں کہ حکیم اللہ محسود مذاکرات کا حامی تھا البتہ اپنی ہلاکت سے محض چند روز قبل اُس نے بی۔بی۔سی کو انٹر ویو دیتے ہوئے جو کچھ کہا اُس سے تو صاف نظر آتا تھا کہ وہ مذاکرات نہیں کرنا چاہتا۔ اُس نے کہا کہ پہلے ڈرون حملے بند کیے جائیں ، وزیرستان سے افواج واپس بلائی جائیں، گرفتار کیے گئے تمام طالبان کو رہا کیا جائے اور ہلاک ہونے والے طالبان کے ورثہ کو بھاری معاوضہ دیا جائے اس کے بعد مذاکرات کے بارے میں سوچا جائے گا۔ کیا اِن شرائط میں سے کوئی شرط بھی ایسی ہے جو حکومتِ وقت کے لیے قابلِ قبول ہو ؟۔کیا ہم مفتوح تھے جو ہم سے ” خراج” کا مطالبہ کیا جا رہا تھا؟۔
آل پارٹیز کانفرنس میں طالبان سے مذاکرات کے متفقہ فیصلے کے بعد طالبان نے اپنی کارروائیاں تیز کر دیں ۔ پاک فوج کے میجر جنرل ثنا اللہ خاں نیازی، لیفٹیننٹ کرنل اور ایک فوجی کو شہید کیا، پشاور میں چرچ پر حملہ کیا، پشاور ہی میں قصّہ خوانی بازار اور تحریکِ انصاف کے وزیرِ قانون کو شہید کیا۔سیّد صاحب کے ”شہید”نے تو یہ تک کہہ دیا کہ چرچ پرحملہ شریعت کے عین مطابق ہے ۔ کیا انتہائی محترم سیّد منور حسن صاحب یہ بتلانے کی زحمت گوارہ کریں گے کہ کس شریعت میں نہتے اور بے گناہ غیر مسلموں پر حملہ جائز ہے ؟۔ اور کون سی شریعت چالیس ہزار بے گناہ مسلمانوں کے قتل کو جائز قرار دیتی ہے؟۔ ربّ ِ کردگار تو ایک بے گناہ کے قتل کو پوری خُدائی کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے لیکن سیّد صاحب کا ”ہیرو” چالیس ہزار بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے باوجود بھی شہید۔افواجِ پاکستان کے ترجمان نے بالکل درست اپنے غم و غُصے کا اظہار کرتے ہوئے جماعتِ اسلامی کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے کہا ہے کیونکہ سیّد صاحب کے سامنے سب سے بڑا سوالیہ نشان یہ ہے کہ ہمارے فوجی شہید ہیں یا نہیں؟۔ اُنہوں نے فرمایا کہ جب عالمِ اسلام کے خلاف لڑنے والے امریکی فوجی شہید نہیں تو پھر امریکہ کی مدد کرنے والے، اُس کی خاطر لڑنے والے اور اُنہیں خفیہ رپورٹس پہنچانے والے کیسے شہید ہو گئے۔
دست بستہ عرض ہے کہ ہمارے فوجی جوان حکومتِ وقت کے حکم پر وطن کی حفاظت کے لیے مصروفِ جہاد ہیں اور دینِ مبیں کے مطابق صرف حکومتِ وقت ہی جہاد کا اعلان کر سکتی ہے کوئی مفتی، کوئی عالم اور کوئی مذہبی جماعت نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومتِ وقت نے پاک فوج کو وطنِ عزیز کے باغیوں کی سرکوبی کے لیے جو حکم دیا وہ درست نہیں تھا لیکن یہ کہہ دینا کہ وطنِ عزیز کی مٹی کو اپنے خون سے رنگین کرنے والے فوجی افسر اور جوان شہید نہیں، کسی بھی صورت میں درست نہیں۔
Maulana Fazlur Rehman
محترم سلیم صافی نے وہی سوالات مولانا فضل الرحمٰن کے سامنے بھی رکھے جو وہ سیّد منور حسن صاحب سے کر چکے تھے ۔سیاسی بساط کے ماہر کھلاڑی مولانا فضل الرحمٰن کا ہر جواب سیاسی تھا اور وہ ہر سوال کو ہنستے مسکراتے ٹالتے جا رہے تھے البتہ حکیم اللہ محسود کو وہ بھی شہید سمجھتے ہیں ۔ اُنہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ”اگر امریکہ کسی کُتے کو بھی ہلاک کرے تو میں اسے بھی شہید کہوں گا۔ مولانا صاحب کے اس بیان پر بہت لے دے ہوئی جس پر اُنہوں نے یہ کہنے میں ہی عافیت جانی کہ اُنہوں نے یہ امریکہ سے انتہائی نفرت کے اظہار کے طور پر کہا تھا۔ مولانا مفتی محمود کے فرزندِ ارجمند کو بہرحال یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ حالتِ غیض میں بھی کتے کو (نعوذ باللہ) شہید کہیں لیکن چونکہ مولانا اور اُن کی جماعت کی طرف سے بار بار وضاحتی بیانات آ چکے ہیں اِس لیے اب اِس بحث کو ختم ہو جانا چاہیے۔ ویسے بھی مولانا کی نظریں چونکہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کے حصول پر ہیں اور مولانا خوب جانتے ہیں کہ ایسے بیانات خیبر پختونخواہ کے عوام کو بہت مرغوب ہیں اِس لیے اُنہوں نے عوام کی نظروں میں اپنا سیاسی قد بڑھانے کے لیے یہ بیان داغ دیا۔
سلیم صافی صاحب نے بتکرار مولانا سے پوچھا کہ اگر تحریکِ انصاف نیٹو سپلائی بند کرنے کے لیے میدان میں اترے تو کیا مولانا اُن کا ساتھ دیں گے؟۔ مولانا متواتر یہ کہتے ہوئے طرح دیتے رہے کہ تحریکِ انصاف کی نیت میں فتور ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ مولانا نیٹو سپلائی کی بندش اور ڈرون حملوں کے خاتمے کے لیے تحریکِ انصاف کے ہمنوا ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا تحریکِ انصاف نیٹو سپلائی بند کرے گی ؟۔ یا اگر عنانِ حکومت مولانا کے ہاتھ میں آ جاتا ہے تو وہ ایسا دلیرانہ قدم اٹھانے کی سکت رکھتے ہیں؟۔ دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ تحریکِ انصاف اِس وقت یو۔ایس۔ایڈ کے ساتھ مل کر بہت سے منصوبوں پر کام کر رہی ہے اور تحریکِ انصاف کے رہنما امریکی اہلکاروں کے ساتھ مشاورت میں مصروف رہتے ہیں۔ امریکہ نے یو۔ایس۔ایڈ کے تحت کل 87 ارب روپے پاکستان میں مختلف منصوبوں پر صرف کرنے ہیں جن میں سے 50 ارب روپے خیبر پختونخواہ میں صرف کیے جا رہے ہیں اور یہ وہی منصوبے ہیں جن کا سارا کریڈٹ تحریکِ انصاف بڑے فخر سے لے رہی ہے۔ اگر نیٹو سپلائی بند کر دی گئی تو یہ منصوبے شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائیں گے اور کپتان صاحب کا چھ ماہ میں خیبر پختونخواہ کی تقدیر بدلنے کا خواب بھی ادھورا رہ جائے گا ۔اِس لیے سیاسی بیانات کی حد تک تحریکِ انصاف جتنا جی چاہے شور مچائے وہ نیٹو سپلائی کی بندش جیسا ”کارِ بیکار” ہر گز نہیں کرے گی۔ دوسری طرف مولانا صاحب خوب جانتے ہیں کہ جب تک خیبرپختونخواہ کی حکومت اُن کے ہاتھ آئے گی، اُس وقت تک امریکہ افغانستان چھوڑ چکا ہو گا اور نیٹو سپلائی کی بندش کا معاملہ خود بخود دفن ہو جائے گا ۔ اِس لیے اُن کی شدید خواہش ہے کہ تحریکِ انصاف نیٹو سپلائی کی بندش جیسی حماقت کرکے مولانا صاحب کی حکومت کے لیے راہ ہموار کر دے۔