تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا اسلامی جموریہ پاکستان کے چپہ چپہ گلی گلی، نگر نگر اور ڈگر ڈگر احتجاج اور ریلیاں عاشق رسول ۖ ملک ممتاز قادری کی شہادت کے خلاف جاری ہیں مظاہرین نے راولپنڈی کو دارالحکومت اسلام آباد سے ملانے والی بڑی شاہرہ اسلام آباد ایکسپریس وے اور فیض آباد پل کے علاوہ بارہ کہو اور روات سے شہر میں آنے والے راستے بند کر دیے ہیں اور گاڑیوں پر پتھراؤ کیا ہے۔ فیض آباد کے قریب مظاہرین نے میڈیا کے نمائندوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ اسلام آباد میں وکلا کی تنظیم اسلام آباد بار کونسل نے بھی پھانسی کے خلاف ہڑتال کرنے اور احتجاجاً عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔لاہور میں بھی احتجاج کے باعث میٹرو بس سروس معطل کر دی گئی ہے جبکہ شہر میں دفعہ 144 نافذ کر کے جلسے اور جلوسوں کے انعقاد پر پابندی لگا دی گئی ہے۔لاہور کے داخلی و خارجی راستوں پر مذہبی تنظیموں کی جانب سے دھرنے دیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں
ممتاز قادری کو پھانسی دینے یا نہ پھانسی نہ دینے سے عدالتوں کے فیصلے ، عدالتوں کی کاروائی کو نشانہ بنانا یا ملک میں افراتفری پیدا کرنا مطلب نہیں ، ملک ممتاز قادری کا موقف روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ سابق گورنر پنجان سلیمان تاثیر کوگولیوں سے چھلنی کرنے والے ملک ممتاز قادری کی کوئی ذاتی رنجش سلیمان تاثیر کے ساتھ نہیں تھی، ملک ممتاز قادری رزق حلال کے لئے وطن عزیز کی ایلیٹ فورس پولیس میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے ، اور اس سے برا کیا ثبوت دوں کہ سلیمان تاثیر کو بھی ملک ممتاز قادری کی شجاع بہادری پر فخر تھا یہی وجہ ہے کہ ملک ممتاز قادری سلیمان تاثیر کی حفاظت پر مامور تھے۔ ایسا کیا ہوا؟ کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر ہی کے چراغ سے۔ والہ قصہ بن گیا، ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد ایسے متعدد افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے جو مبینہ طور پر ملک میں ‘ممتاز قادری بچاؤ مہم’ چلا رہے تھے۔
Salman Taseer
سلمان تاثیر کے قاتل کو پھانسی دیے جانے کا معاملہ انتہائی خفیہ رکھا گیا اور اس بارے میں پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کے چند افسران ہی باخبر تھے۔ ممتاز قادری کو یکم اکتوبر 2011ء کو راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے گھناؤنے جرم کے ارتکاب کا مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم دیا جس پر اسلام آباد کی عدالت عالیہ نے فوری توڑ پر حکم امتناعی جاری کر دیا اور آج تک حکومت کی متعدد درخواستوں کے باوجود سماعت کرنے سے انکاری ہے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر ہی کے چراغ سے اس بات کی وضات مرحوم و مغفور ممتاز قادری کے بقول اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ سلمان تاثیر نے اس کے بقول توہین رسالت کے قانون کی مخالفت کی تھی۔ سلمان تاثیر نے 2010ء میں پاکستان میں قانون توہین رسالت کی شدید مخالفت کی اور اس میں فوجی آمر ضیاء الحق کے دور میں کی کی گئی ترمیم کو کالا قانون قرار دیاـ اس کے نتیجہ میں علماء کی ایک بڑی تعداد نے اسے واجب القتل قرار دے دیا اور 4 جنوری 2011ء کو اس کے ایک محافظ ملک ممتاز حسین قادری نے اسلام آباد کے علاقے ایف ـ6 کی کوہسار مارکیٹ میں اسے قتل کر دیاـ
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اپنے تبصرے میں کہا تھا کہ توہین مذہب کے مرتکب کسی شخص کو اگر لوگ ذاتی حیثیت میں سزائیں دینا شروع کر دی جائیں تو اس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔ عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینج کے فیصلے کے خلاف ممتاز قادری نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی بھی درخواست کی لیکن اُسے بھی خارج کر دیا گیا جب کہ صدر پاکستان نے بھی ممتاز قادری کی رحم کی اپیل مسترد کر دی تھی۔ جبکہ سابق چیف جسٹس نذیر احمد نے دلائل کی روشنی میں اس فیصلہ کو غلط ٹھہراتے ہوئے کہاتھاکہ ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو قتل کرکے اہم کارنامہ انجام دیا ہے اور ممتاز قادری کا یہ اقدام درست ہے۔ اب حدیٹ شریف کے پاس چلتے ہیں صحیح بخاری[4]:۔
Muhammad PBUH
بعث رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم الی ابی رافع الیھودی رجالا من الانصاروامر علیھم عبد اللہ بن عتیق وکان ابو رافع یؤذی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم و یعین علیہ۔ ترجمہ: رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کیلئے چند انصار کا انتخاب فرمایا، جن کا امیر عبد اللہ بن عتیق مقرر کیا۔یہ ابو رافع نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دیتا تھا اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کی مدد کرتا تھا۔” اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ گستاخ رسول کے قتل کیلئے باقاعدہ آدمی مقرر کئے جاسکتے ہیں اور نیز یہ بڑے اجر و ثواب کا کام ہے نہ کہ باعث سزاو ملامت۔کیونکہ یہ لوگ ایک بہت ہی بڑا کارنامہ اور دینی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
”عن انس بن مالک ان النبی صل اللہ علیہ وسلم دخل مکہ یوم الفتح و علی راسہ المغفر فلما نزعہ جاء رجل فقال ابن خطل متعلق باستار الکعبہ فقال اقتلہ۔ (صحیح بخاری) قال ابن تیمیہ فی الصارم المسلول وانہ کان یقول الشعر یھجو بہ رسول اللہ ویامرجاریتہ ان تغنیابہفھذا لہ ثلاث جرائم مبیحة الدم، قتل النفس، والردة، الھجائ۔(الصارم۔صفحہ ٥٣١) امر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم بقتل القینتین(اسمھما قریبہ و قرتنا) (اصح السیر۔صفحہ ٦٦٢) ترجمہ: حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صل اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک پر خود پہنا ہوا تھا۔جب آپ نے خود اتارا تو ایک آدمی اس وقت حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردو ں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے،آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسکو قتل کردو۔(صحیح بخاری[5]) ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں لکھا ہے کہ ابن خطل اشعار کہہ کر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور اپنی باندی کو وہ اشعار گانے کیلئے کہا کرتا تھا، تو اسکے کل تین جرم تھے جس کی وجہ سے وہ مباح الدم قرار پایا۔
اول ارتداد دوسرا قتل اور تیسرا حضور صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی[6]۔ اور سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے ابن خطل کے ان دونوں باندیوں کے قتل کانبی صل اللہ علیہ وسلم نیحکم دیا تھا۔ بحثیت مسلمان اور ایک پاکستانی ہم شرمندہ ہیں دُعا ہے اللہ پاک سچے اور پکے عاشق رسول ۖ کے صدقے ہم پر رحم فرمائے، آخر میں صدرِ مملکت اسلامی جموریہ پاکستان سے گزارش ہیں اللہ پاک کے پیارے حبیب نبی آخر الزماں سردار الانبیاء جناب محمد ۖ کے عاشق ملک ممتازقادری کی رحم کی اپیل مسترد کرنے پر ، ملک ممتاز قادری کی روح، عاشقان رسول اور پاکستانی قوم سے مافی مانگنی چاہیئے۔