مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے تب تک جدوجہد جاری رہے گی جب تک مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کی امنگوں اور خواہشات کے عین مطابق نہ نکلے۔ کشمیری قوم نے اپنے تسلیم شدہ حق کیلئے بے تحاشہ قربانیاں دی ہیں،اسلئے اُنکی رائے اورمنشاء کوکسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہ کیا گیا تو ایٹمی جنگ کا خطر ہ رہے گا۔ امن و استحکام خلاء میں نہیں بلکہ زمین پر قائم کرنا ہے لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب مسئلہ کشمیر پرامن طور پر حل ہوگا۔ اگر بھارت اور پاکستان کے مابین ہونے والے مذاکرات کونتیجہ خیز اور بااعتبار بنانا ہے تو مذاکرات میں کشمیری قیادت کی شمولیت کویقینی بناناناگزیرہے۔مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی فوج کے کشمیریوں پر مظالم کی داستان کوئی نئی نہیں، کشمیری قوم قربانیاں دے رہی ہے اور میدان عمل میں ڈٹی ہوئی ہے،انڈیا کی طرف سے متعدد مواقع پر کشمیریوں کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی گئی جو رائیگا ں گئی ، انسانی حقوق کی تنظیم جموں و کشمیر ہیومن رائٹس موومنٹ نے مقبوضہ کشمیر کی تحقیقاتی رپورٹ شائع کی جس کے مطابق 1947ء سے 2013ء کے اختتام تک پانچ لاکھ افراد شہید، 9988 خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں گمنام قبریں 5900 غائب شدہ افراد کی تعداد 10 ہزار’ ایک لاکھ 10 ہزار بچے یتیم، ایک لاکھ سے زائد افراد گرفتار ہوئے۔ بھارت کے کالے قانون پوٹا’ ٹاٹا اور آفسپا قانون کے مطابق 24 افراد مختلف جیلوں میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں جو تشویشناک ہے۔ ہیومن رائٹس موومنٹ کے مرکز کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے اندر انسانی حقوق کی پامالی کی بلند سطح پر پہنچ گئی۔ شہید کئے گئے افراد میں زیادہ تر تعداد گیارہ سال سے 60 تک بچوں اور بوڑھوں کی ہے۔ 9988 خواتین کی بے حرمتی کی گئی 710 خواتین کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا اس سے انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہوئی جوکہ تشویشناک ہے۔
ایک لاکھ دس ہزار افراد تاحال مختلف جیلوں میں کالے قانون کے تحت سزائیں کاٹ رہے ہیں۔ 24 افراد عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ بھارت نے 1990ء سے 2013ء تک ایک لاکھ 16 ہزار افراد کو شہید کیا۔ اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 140 مرتبہ لائن آف کنٹرول کی خلاف و رزی کی۔ 3 ہزار سے زائد مارٹر گولے فائر کئے جوکہ دو سال کی سب سے بڑی کارروائی ہے جن میں تقریباً 60 سے زائد افراد شہید کئے گئے اور آج بھی سینکڑوں خاندان نقل مکانی کرکے پاکستان اور مہاجر کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔حال ہی میں کشمیریوں پر مظالم کی ایک نئی داستان اسوقت سامنے آئی جب 53 بے نام قبروں سے49عام شہریوں کی نعشیں برآمد’ ہونے کادعویٰ کرتے ہوئے لاپتہ افرادکے لواحقین کی تنظیم اے پی ڈی پی نے انکشاف کیاکہ شمالی کشمیر کے پولیس تھانوں میںبے نام قبروں کی موجودگی سے متعلق 2683ایف آئی آردرج کی گئی ہیں لیکن پولیس نے مدفون نعشوں کی شاخت کے حوالے سے کبھی کوئی تحقیقات نہیں کیں۔
ارجنٹائن کی حکومت نے پہلی مرتبہ گمنام یااجتماعی قبروں کی خفیہ اندازمیں تحقیقات کی بلکہ مقامی تنظیم کے مطابق اُس نے ہی گمنام قبروں کی تحقیقات کی ابتداء کرتے ہوئے ریسرچ شروع کرنے کے ساتھ ساتھ مہم بھی چلائی اورعالمی سطح پر معاملے کواُجاگربھی کیا۔مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی ، امریکی ممالک اور یورپین پارلیمنٹ نے اس حوالے سے بھارتی حکومت پر بھی دباو ڈالا تھاکہ وہ جموں و کشمیر میں گمنام قبروں کی تحقیقات کے ساتھ ساتھ لاپتہ افراد کا سراغ لگانے میں بھی اقدامات کریں ۔رپورٹ کے مطابق بارہمولہ ، کپوارہ ، بانڈی پورہ ، راجوری اور پونچھ اضلاع کے مختلف علاقوں میں 7ہزار کے لگ بھگ گمنان یا اجتماعی قبریں موجود ہیں۔ جن میں سے کئی اجتماعی قبریں ایسی بھی شامل ہے ، جن میں بیک وقت ایک سے زیادہ نعشوں کو دفن کیا گیا ہے۔
Graveyard
ریاستی حقوق انسانی کمیشن کی طرف سے شمالی کشمیر میں بے نام یا اجتماعی قبروں کی موجود گی کے حوالے سے کی گئی تحقیقات کے مطابق شمالی کشمیر میں اڑھائی ہزار ایسی قبریں مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔ لیکن یاستی حکومت نے اپنے قائم کردہ مقامی حقوق انسانی کمیشن کی طرف سے مرتب کردہ رپورٹ تک کو نظر انداز کر دیا اور اس بات کی کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ بے نام یا اجتماعی قبروں میں دفن لوگ کون ہیں۔ شمالی کشمیر کے 3 اضلاع بارہمولہ، کپوارہ اور بانڈی پورہ میں قائم پولیس تھانوں میں ایسے 2683 ایف آئی آر درج ہیں، جو نامعلوم افراد کو جھڑپوں کے دوران ہلاک کئے جانے کے حوالے سے درج کی گئی ہیں مگر پولیس نے درج ایف آئی آر کی بنیاد پر کبھی تحقیقات نہیں کی کہ جن نعشوں کو قبروں میں دفن کیا گیا، وہ کن لوگوں کی ہیں اور انہیں کس بنیاد پر گولیوں کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا ۔ اے پی ڈی پی نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اب تک 53بے نام قبروں کو کھولنے کے بعد یہاں سے جو نعشیں بر آمد کی گئیں ، ان میں سے 49نعشیں عام شہریوں کی ثابت ہوئیں جنہیں بھارتی فوج اور فورسز نے مارے گئے افراد کو مقامی یا غیر ملکی جنگجو قرار دیا تھا۔
ایس ایچ آر سی کی پولیس تحقیقاتی ونگ نے اپنی تحقیقات کی بنیاد پر مرتب کردہ رپورٹ میں اس بات کا حوالہ دیا ہے کہ 574 افراد کو ہلاک کرنے کے بعد غیر ملکی جنگجو قرار دیا گیا لیکن قبریں کھولنے کے بعد یہ سبھی افراد مقامی سکونت پزیر افراد ثابت ہوئے۔ اجتماعی قبروں میں دفن کئے گئے نا معلوم افراد کے بے گناہ یا عام شہری ہونے کی حقیقت تب سامنے آئی جب ضلع گاندربل میں فرضی جھڑپ کے دوران مارے گئے 5افراد کی نعشوں کو ایک قبرستان سے نکالا گیا۔اس واقعہ کے بعد دو پولیس افسروں کو قصور وار پایا گیا اور ان کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی۔ جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں موجود گمنام قبروں کی تحقیقات میں عالمی برادری کی دلچسپی کوحوصلہ افزاء قرادیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی مقامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ارجنٹائن کی سرکاری ٹیم کی خفیہ تحقیقات کاخیرمقدم کیا ہے۔
یہ عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں گزشتہ 23 برسوں کے دوران رونما ہو نے والی سنگین نوعیت کی پامالیوں کاسنجیدہ نوٹس لیکر متاثرین کوانصاف دلانے اور ملوث عناصر کوقانون کے دائرے میں لانے کی عملی کوشش کرے۔ اقوام متحدہ کے شعبہ حقوق انسانی کوآگے آکر جموں و کشمیر میں موجود بے نام یاگمنام قبروں کی دفن حقیقت دنیاکے سامنے لانے کیلئے اپنی ایک خصوصی ٹیم مقبوضہ کشمیر روانہ کرنی چاہئے۔ مقبوضہ کشمیر میںکل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق، بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک نے مقبوضہ علاقے میں دریافت ہونے والی گمنام اجتماعی قبروںکی بین لاقوامی سطح پر آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
اور کہا کہ اجتماعی قبروں کی فوری طور پر آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئیں تاکہ حقیقت واضح ہو اور عالمی برادری مقبوضہ علاقے کی زمینی صورت حال جان سکے۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں پہلے ہی اجتماعی قبروں کی شناخت کر چکی ہیں، حقائق سے انکار کو کسی بھی سطح پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پولیس چیف کا بیان سراسر غیر منطقی ہے کیونکہ گمنام اجتماعی قبروں کا معاملہ پہلے ہی ہائی کورٹ میں ہے۔ سید علی گیلانی نے کہا کہ اجتماعی قبروں کے معاملے کی عالمی سطح پرتحقیقات ہونی چاہئے اور دنیا بھر سے ایک آزادانہ تحقیقاتی ٹیم اس معاملے کی تحقیقات کرے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس چیف سے یہ پوچھا جانا چاہئے اگر انہیں یقین ہے کہ کشمیر میں اجتماعی قبریں موجود نہیں تو پھر بھارتی حکومت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے معاملے کی تحقیقات کرانے میں کیوں ہچکچا رہی ہے۔ اجتماعی قبروںکے مسئلے کو ایک منصوبہ بند سازش کے تحت ہر سطح پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اگر مقبوضہ علاقے میں اجتماعی قبریں موجود نہیں تو پھر قابض انتظامیہ کو ان دس ہزار سے زائد افراد کے بارے میں معلومات فراہم کرنی چاہئیں جنہیں دوران حراست لاپتہ کیا گیا۔ کشمیری جاننا چاہیے ہیں کہ وہ دس ہزار افراد کہاں ہیں جنہیں ان کے اہلخانہ کے سامنے گرفتار کیا گیا اور وہ اب تک اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹے۔