شہید ایس پی چودھری اسلم پر حملے کے لرزہ خیز انکشافات

Chaudhry Aslam

Chaudhry Aslam

کراچی (جیوڈیسک) سندھ پولیس کے مایہ ناز شہید آفیسر ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم پر حملے کی کئی گتھیاں سلجھ گئیں۔قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ہاتھوں گرفتار ملزم مفتی شاکر عرف شاکر اللہ نے سنسنی خیز انکشافات کیئے ہیں۔

9 جنوری کا دن سندھ پولیس کی تاریخ کے سیاہ دنوں میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس روز سندھ پولیس کے بہادر افسر ایس پی چوہدری اسلم پر جان لیوا خود کش حملہ کیا گیا جس کی تفتیش قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے چیلنج بنی رہی تاہم سائٹ سے گرفتار کالعدم تنظیم کے کارندے شاکر اللہ عرف مفتی شاکر عرف ابو دردا نے ایس پی چوہدری اسلم پر حملے کی کئی گتھیاں سلجھا دی ہیں۔ ایس پی چوہدری اسلم پر حملہ دو کالعدم تنظیموں کے کارندوں کی مدد سے کیا گیا۔

زیر حراست ملزم مفتی شاکر نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ خود کش حملے کے لیے کالعدم لشکر جھنگوی کے عمر نامی دہشتگرد نے منصوبہ بندی کی اور اس ملزم سے خود کش حملہ آور طلب کیے۔ ملزم مفتی شاکر نے ابتدائی طور پر اس حملے کے لیے خود کو پیش کیا تاہم منصوبہ ساز کے انکار پر اسکا شاگرد اور قریبی ساتھی نعیم اللہ اس حملے کے لیے تیار ہوا۔ ملزم نے انکشاف کیا کہ حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی سائٹ کے علاقے کے ایک گودام میں تیار کی گئی۔

حملے سے تین روز قبل تک بارود سے بھری یہ گاڑی جائے واردات پر کھڑی کی جاتی رہی تاہم چوہدری اسلم کے اس راستے سے نہ گزرنے کے باعث حملہ 9 جنوری کو کیا گیا۔ حملہ میں ہلاک ہونے والا نعیم اللہ جائے واردات سے متصل ایک مسجد میں صبح سے شام تک قیام کرتا رہا۔ ملزم نے یہ بھی بتایا کہ 5 جنوری کو بنارس کے ایک مکان میں خود کش حملے کی کامیابی کے لیے دعایئہ تقریب بھی کی گئی۔

ملزم مفتی شاکر نے بتایا کہ 2013 میں اسکے گھر پر چھاپے کے باعث صفورہ چورنگی کے نزدیک سعدی ٹاون میں اس نے ایک مکان کرائے پر حاصل کیا اور مالک مکان سے کرایہ کے معاہدہ پر چوہدری اسلم پر حملے میں مارے جانے والے نعیم اللہ نے دستخط کیے ۔ ملزمان نے اس مکان کا معاہدہ 10 جنوری سے 10 دسمبر تک کے لیے کیا لیکن 9 جنوری کو نعیم اللہ کی ہلاکت کے بعد یہ معاہدہ منسوخ کر دیا گیا۔

ملزم نے مزید انکشاف کیا کہ انسپیکٹر شفیق تنولی پر بم حملے میں بھی یہی گروہ ملوث تھا اور شفیق تنولی کے زخمی ہو کر جناح ہسپتال آنے کی صورت میں دوسرا حملہ کیا جانا تھا تاہم انسپیکٹر شفیق تنولی کو نجی ہسپتال منتقل کیے جانے کے باعث یہ منصوبہ منسوخ کیا گیا۔

ملزم نے انکشاف کیا کہ ایس پی چوہدری اسلم کے قریبی ساتھی انسپیکٹر بہاوالدین بابر کو بھی اسی گروہ نے قتل کیا۔ تفتیشی حکام نے اس ملزم کے انکشافات کی روشنی میں تفتیش کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے ملزم کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔