شہید باقر عمران کی سولہویں برسی

Baqar Imran

Baqar Imran

مصر کا ایک مسلمان شاعر محمدالماغوط دنیا بھر کے دکھی انسانوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ”تمھارے پاس جو کچھ بھی ہے خوف، چیخیں، اُداسیاں، بیماریاں، پھٹے ہوئے پیٹ، کٹے ہوئے جسم اور نچے ہوئے ناخنوں سمیت جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ مجھے روانہ کردو دنیا کے کسی بھی گلی کے کسی بھی چائے خانے کے پتے پر میرے نام بھیج دو کیونکہ میں انسانی دکھوں اور مصیبتوں کی ایک بہت بڑی فائل تیار کر رہا ہوں جب اُس پر بھوکے پیٹ اپنے نشان ثبت کر دیں گے اور محو انتظار پلکیں دستخط کر دیں گی تو یہ فائل خدا کے حضور پیش کر دی جائے گی۔

میں 1997سے کارزار ِ صحافت میں ہوں ،بہت کچھ لکھا صفحہ قرطاس پر دوسروں کی جنگ لڑی ،ٍدوسروں کے دکھوں کو اپنے آپ پر سہنا آسان کام نہیں میں نے جس فرد کی زندگی ،اُس کے غم کو لکھا اُس میں خود کو شامل کیا اور انسانی دکھوں کو لفظوں کی شکل دی لیکن میں نہیں جانتا کہ ان کاغذوں کو ایسی کیا بد دعا ہے کہ آپ اِن پر کتنے ہی جلتے حروف رکھ دیں یہ کا غذ نہیں جلتے جن لوگوں کے پاس احساس ہے جلتے ہوئے حروف پڑھتے ہوئے اُن کے احساسات سلگنے لگتے ہیں مگر کوئی کا غذ نہیں جلتا شاید یہ بد دعا نہیں ہے بھی تو بد دعا نہیں کہنا چاہیئے اگر ایسا ہوتا تو خدا جانے دنیا کی کتنی کتابیں اپنے حروف کی آگ سے جل گئی ہو تیں باقر عمران کی 16ویںبرسی پرلکھتے ہوئے بھی مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اتنے بڑے ظلم اور سفاکی پر بھی یہ کاغذ نہیں جلے یہ خوں آشام منظر میں ڈوبے ہوئے اس شہر کے باپ کا نوحہ ہے جو آنکھ کے دشت میں دہکتے ہوئے الائو لئے زندگی کی دہلیز پر دل کے گرداب میں ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح عرصہ ہوا انصاف کی آرزو پر ماتم کناں ہے۔

وقت کے کپکپاتے ہوئے ہاتھ سے چھوٹ کر پدر سے محرومی کے گہرے گڑے میں پڑا ہوا افسردہ ڈھانچہ فریاد کر رہا ہے کہ قانون اندھا ہے ،انصاف لنگڑا ہے ،منصف بہرا ہے ،عدالتیں مقتل اور تھانے آبر ئوں کی بولی لگانے والے بازار بن گئے بوڑھا باپ اپنی ٹوٹی ہوئی لاٹھیوں کی لحد سے لپٹے ہوئے زرد غموں کے جھرمٹ میں موت اور انصاف کے انتظار کی شمع جلائے سسک رہا ہے قاتل درندے نے ماں کی آغوش سے گلاب چھین کر اس میں روح تک اُتر جانے والے کانٹے بھر دیئے۔

Allah Bakhsh

Allah Bakhsh

بہنیں ہیں کہ سولہ برس سے آنسوئوں میں بھیگے ہوئے آنچل آہوں کی دھوپ میں سکھا رہی ہیں مگر آنچل ہیں کہ بھیگتے چلے جارہے ہیں عرصے بعد اداس چہرے کے افق پر صبح نو کی کرن دیکھی شاید یہ سچے دوست کا ملن تھا مگر میرے ہاتھوں میں اللہ بخش ڈونہ نے جو نوحہ تھمایا اُسے صفحہ قرطاس پر نہ بکھیروں تو تحریر کی تشنگی باقی رہے گی یہ شفقت پدری کی شدت کا اظہار ہے کہ ”محمد باقر عمران شہید کو ہم سے بچھڑے بلکہ چھینے ہوئے سولہ برس ہو گئے ہیں مگر تاحال زخم تازہ ،آنکھیں اشکبار ،فطرت کے قانون سے اختلاف نہیں۔

مگر انتظامیہ کی بے حسی۔اپنوں کی بیگانگی، سیاست دانوں کی پہلو تہی، معاشرے کی پرانی بھول جانے کی عادت قانون فطرت کو للکار رہی ہے ہم بے بس، بے کس، بے نور آنکھوں کے ساتھ خمیدہ کمر انصاف کے انتظار کی گھڑیاں گن رہے ہیں، ہر آشنا چہرے کو آنکھوں کے اوپر ہاتھوں کا شیڈ بنا کر پہچاننے کی کوشش میں مصروف ہیں کیا یہ وہی لوگ ہیں جو ہمارے رشتہ دار، ہمسفر،بہی خواہ، دوست، عوامی خدمت کے دعویدار، نامور صحافی، انتظامی ستون، آزادعدلیہ ان سب کو کیا ہو گیا ہے۔

کیا یہ کسی کی فریاد سے بے بہرہ ہیں ؟
کیا صحافی کے قلم کی سیاہی ختم ہو گئی ہے ؟
رشتوں کے خون میں سفیدی کا رنگ غالب آگیا ؟

آشنائوں کی ناشناسائی یہ سب کیا ہے ؟ شاید یہ بھی امتحاں میں شامل ہے اسی لیئے پیپر کی تیاری کیلئے صبر کا قلم ،عبرت کا قرطاس ،شرافت کی گہرائی میں حل کرنا ہوگا ،زنجیریں کھٹکھٹانے کیلئے دستک کی سکت پیدا کرنا ہوگی ،فکر فردا کے مدہوش معاشرے کو جھنجھوڑنا ہوگا

کل یک بیک تیری یاد آئی
جیسے چپکے سے ویرانے میں بہار آئے
جیسے ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آئے

عمران رخت سفر باندھ رکھا ہے نہ جانے تہی دست کب تیرے پاس پہنچ جائوں اُمیدوں کا بیکراں سمندر لیئے احساس کی سولی پہ لٹکا ہوا تیرا باپ غم سے رنجور، تیری یاد کے زخموں سے چکنا چور تیری سولہویں برسی منا رہا ہے ،گر قبول اُفتد زہے عزو شرف ” قارئین ! قلم بھی بڑے دنوں سے خاموش ہے بہت دن گزرے اخبارات کے صفحات سے بھی دور ہوں اور یہ قلم کبھی کبھی لکھتا بھی نہیں روانی منجمد ہو جاتی ہے شاید یہ آنسوئوں کی کسی کہانی اور دکھوں کے کسی نوحے کا اثر ہوتا ہے جبھی تو ہاتھ میں تھامتا ہوںلکھنے کیلئے تو یہ ساکت ہو جاتا ہے محترم اللہ بخش ڈونہ کے کرب کی تان بھی صحافی کے قلم پر ٹوٹی ہے میرے ہاتھ میں تھمے اس قلم نے معاشرے کی فریب کاری کو ننگا کیا ،ایک طبقہ کی بد دیانتی، عداوت، نفرت، لوٹ مار پر لکھا اور آج بھی یہ کوشش ہے کہ یہ قلم وہ نوحے لکھے جو میرا دل چاہتا ہے، وہ مرثیہ لکھے جو کوئی سنے تو اُس کا کلیجہ پھٹ جائے عمران شہید کی سولہویں برسی پر ایک آزاد نظم کے ساتھ اختتام کر رہا ہوں جس کا عنوان ہے ”سوالِ عدل”

میرے اخبار کے صفحات پر
گھمسان کارن ہے
سیاہ لفظوں کے شانوں پر
سجیلے عہد ناموں کے جنازے ہیں
لہو ُ کے سرخ چھینٹے ناشتے کی میز پر ہر سمت پھیلے ہیں
ذہن کب تک چپکے ذائقوں کا زہر چکھے گا
سوالِ عدل اب کیسے اُٹھے گا ؟
صدائوں میں بھنور پڑنے لگے ہیں

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک