تحریر : قادر خان یوسف زئی حسب توقع بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری نے تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا مشورہ قبول کرلیا اور گورنر بلوچستان کو مختصر تحریر دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ بلوچستان حکومت کی اتحادی حکومت مری معاہدے کے تحت دومراحل پر شریک اقتدار کے فارمولے پرتشکیل دی گئی تھی ۔ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے بعد اگلے مرحلے کے طور پر نواب ثنا اللہ زہری بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے ۔ جو پاکستان مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر بھی ہیں لیکن ان کی طرز حکمرانی پر بلوچستان میں ان کے اپنے اتحادیوں میں اختلافات روز بہ روز بڑھتے نظر آئے ۔ بلوچستان میں سیا سی عمل کبھی مضبوط نہیں رہا ہے اس کی بنیادی وجہ بلوچستان میں قوم پرستوں کی جانب سے قومی سیاست میں آنے کے بجائے انتشار کی سیاست کو فروغ دینا رہا ہے۔ جس بنا پر سرداروں و نوابوں کے اس خطے میں عام عوام کے ووٹوں سے مضبوط جمہوری ڈھانچے کی بنیاد نہیں پڑی اور عام عوام آزادانہ اظہار رائے دہی کا بہت کم موقع میسر آیا ۔ قیام پاکستان سے لیکر موجودہ وقت تک کسی نہ کسی صورت میں بلوچستان سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے بلوچستان میں حکومت سازی ایک مشکل ترین فیصلہ تھا۔کیونکہ اس اتحاد کا بند انتہائی کمزور تھا ۔ بلوچستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اتنی اکثریت حاصل نہیں تھی کہ وہ تن تنہا فیصلہ سازی کرسکے اس لئے ایسی صوبائی مخلوط حکومت کا قیام امن میں لایا گیا جس کی مضبوط بنیادوں پر ہمیشہ تحفظات ہی لاحق تھے ۔ خاص کر بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی برطرفی کے بعد بلوچستان کی حکومت کیلئے کام کرنا آسان نہیں تھا۔ بظاہر بلوچستان کی صورتحال کو سیاسی منظر نامے میں کئی زاویوں سے دیکھا گیا ہے۔ جس میں خاص طور پر اتحادیوں کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں اور فنڈنگ کے معاملے میں سخت تحفظات منظر عام پر آئے تھے کہ بجٹ و معاہدے کے مطابق عمل درآمد نہ کرنا بتایا گیا ۔ صوبائی حکومت میں اتحادیوں کی کثیرتعداد ہے اس لئے ہر اتحادی یہ چاہتا تھا کہ قومی انتخابات سے قبل نئے الیکشن کیلئے وہ اپنی کارکردگی کو بہتر ظاہر کرنے کیلئے عوام کے سامنے ووٹ کے دوبارہ جا سکیں۔ لیکن تاہم سب سے اہم وجہ و زیر اعلیٰ کی برطرفی کے لئے ایک عمل یہ بھی تھا کہ سینیٹ کے انتخابات کو روکنے کیلئے صوبہ پختونخوا سے قبل ایک ٹیسٹ کرلیا جائے جس میں قبل ازوقت انتخابات کی راہ ہموار کرنے کیلئے وفاقی حکومت پر دبائو بڑھایا جا سکے ۔ مستعفی وزیر اعلیٰ نے صوبائی حکومت کی برطرفی کی طرف لے جانے کے بجائے خود و مستعفی کرانا مناسب سمجھا اس طرح وفاقی حکومت نے تھوڑی مہلت دوبارہ حاصل کرلی ہے تاکہ قبل از وقت انتخابات کیلئے حکمران سیاسی جماعت خود کو تیار کرسکے۔پس پردہ سابق وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری پر دبائو تھا کہ وہ بلوچستان حکومت کو ختم کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کردیں لیکن انہوں نے اس دبائو کا سامنا کیا اور مستعفی ہوکر پاکستان مسلم لیگ ن کے لئے کچھ مہلت حاصل کرلی ہے۔ ثنا اللہ زہری کے خلاف پاکستان مسلم لیگ ن میں بھی نمایاں اختلاف دیکھنے کو آیاتھا ۔ جب پاکستان مسلم لیگ ن کے وزرا نے بھی کابینہ سے استعفیٰ دینا شروع کردیا ۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بلوچستان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور کوئٹہ کا دورہ بھی کیا ۔ لیکن پاکستا ن مسلم لیگ ن کے 21اراکین میں سے وزیراعلیٰ سمیت صرف 7اراکین شریک ہوئے جبکہ14غیر حاضر تھے ۔ اس صورتحال نے بلوچستان کے سیاسی ماحول کو بہت نمایاں کردیا تھا ۔2جنوری کو عدم اعتماد کی تحریک ق لیگ ، جمعیت علما اسلام ، بلوچستان نیشنل پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی ، مجلس وحدت المسلمین اور نیشنل پارٹی کے 14اراکین کے دستخطوں کے ساتھ جمع کرائی گئی تو وزیر اعظم کے ناکام دورے تک پاکستان مسلم لیگ ن کو توقع تھی کہ ناراض اراکین کو منالیا جائے گا لیکن ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے مشترکہ اتحادی حکومت کے اکثریتی اراکین ثنا اللہ زہری کے مخالف ہوگئے اور وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے اتحادیوں کا اعتماد کھو بیٹھے ۔حیران کن بات ہے کہ 65رکنی بلوچستان کے ایوان میں 52اراکین حکومت کے اتحادی تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان مسلم لیگ ن بلوچستان میں سیاسی استحکام برقرار رکھنے میں ناکام ہوئی۔ 40اراکین تحریک عدم اعتماد میں حصہ لینے کیلئے تیار ہوچکے تھے۔ وفاقی حکومت نے عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی، سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی جان محمد جمالی، سابق ڈپٹی اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو اور سابق وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی سمیت دیگر ناراض اراکین سے رابطے کئے تا ہم اراکین نے ملاقات کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ وزیراعظم، گورنر و وزیرعلیٰ بلوچستان اور چیف سیکرٹری نے اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع سے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور کوئٹہ میں وزیراعظم سے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ملاقات کرنے کی درخواست کی تاہم اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے وزیراعظم، گورنر اور وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنے سے معذرت کرلی اور کہا کہ ہم کسی بھی صورت حکومتی عہدیداروں سے ملا قا ت نہیں کرینگے ہم جہاں ہے وہی ٹھیک ہے۔ ایک جانب اتحادی حکومت کے اراکین اس تحریک کا مقصد سینیٹ کے انتخابات کا راستہ روکنا بتاتے رہے لیکن دوسری جانب ان کے اراکین تحریک عدم اعتماد میں پیش پیش نظر آئے۔
بظاہر تو یہی بتایا گیا کہ بحران پیدا کرنے کا مقصد ٹیکنو کریٹس کی حکومت لانا ہے۔ لیکن بلوچستان کے حوالے سے نمایاں نیا عالمی منظر نامہ بھی سامنے آیا ہے ۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی سامنے آیا کہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ کی پالیسیوں سے بھی کچھ ادارے ناخوش تھے ۔ اس ضمن میں ریکوڈیک معاہدے کو لیکر براہمداغ بگٹی سے رابطے اور دیگر قوم پرستوں کو نظر انداز کئے جانا بتایا جاتا ہے۔ نواب ثنا اللہ زہری نے ریکوڈیک منصوبے پر کان کنی کے حوالے سے ایک غیر ملکی کمپنی سے بات چیت کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا جس سے کچھ حلقے ناخوش نظر آئے۔ اس کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ن کی روایت کے مطابق اپنی پارٹی کو کم توجہ دینا اور دوسروں کو قریب لانے کیلئے اپنوں کو ناراض کرنے کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ الزامات میں قلعہ عبداللہ میں 100سے زائد چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے علاوہ اربوں روپے کے ترقیاتی کا کرائے جانا ہے ، جبکہ اسی طرح کے کاموں کی دوسرے علاقوںمیں بھی ضرورت تھی لیکن ان علاقوں کا نظر انداز کردیا گیا، سردار اختر مینگل کے حلقے کو نظر انداز کرکے اُس ہی علاقے خصدار میں دوسری جگہوں پر کھل کر خرچ کرکے مستعفی وزیر اعلی نے ترقیاتی کام کروائے گئے جس سے نیشنل پارٹی شدید ناراض ہوئی ۔ علاوہ ازیں اب گمان یہ ہے کہ فاٹا کے معاملے پر وفاقی حکومت کو دبائو لانے کیلئے جمعیت علما اسلام ف کا بھی اہم کردار ہوسکتا ہے کیونکہ ثنا اللہ زہری کی ناکامی اور کامیابی کا بند مولانا فصل الرحمن کے ہاتھوں میں تھا ۔
سیاسی حلقوں میں اس بات کو اہمیت دی جا رہی ہے کہ فاٹا انضمام کو روکنے کیلئے اب مولانا فضل الرحمن کے پاس مضبوط کارڈ آچکا ہے ۔ وزیر اعلیٰ کے مستعفی ہونے سے قبل ہی مولانا کے حوالے سے یہ قیاس آرائیاں منظر عام پر آچکی تھیں کہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے انہوں نے بلوچستان کی گورنر شپ مانگی تھی ۔ گو کہ اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی لیکن اب ثنا اللہ زہری کے مستعفی ہونے کے بعد واضح طور پر نئے وزیر اعلیٰ کو کامیاب ہونے کیلئے پاکستا ن مسلم لیگ ن کو اتحادیوں کے ساتھ ساتھ اپنے اراکین کے سخت مطالبات کو بھی تسلیم کرنا ناگزیر ہوجائے گا ۔ اگر پاکستان مسلم لیگ ن متفقہ وزیر اعلیٰ لانے میں ناکام ہوتی ہے اور وزیر اعلیٰ کے لئے اپوزیشن جماعتیں کامیاب ہوجاتی ہیں تو اس بات کا امکان قوی ہوجائے گا کہ قومی انتخابات قبل ازوقت کروانے کیلئے پہلے بلوچستان کی حکومت ختم کرائے جا سکتی ہے ۔اور اس کے ساتھ ہی دبائو بڑھانے کیلئے صوبہ پختونخوا حکومت بھی ختم کی جا سکتی ہے تاکہ سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ ن سادہ اکثریت کے ساتھ کامیاب نہ ہو سکے۔
بلوچستان میں سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کا یہ منظر مستقبل کی منصوبہ بندی کی پیش بندی نظر آتی ہے کہ اب پاکستان مسلم لیگ ن کو اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے کے لئے اپنے اتحادیوں کے مطالبات پر انحصار کرنا ہوگا ۔ کیونکہ بلوچستان میں ناکامی کا مطلب واضح طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کی پالیسیوں کی ناکامی لیا جائے گا ۔ گو کہ سینیٹ انتخابات رکوانے کیلئے صوبہ پختونخوا کی حکومت ختم کرنے کا آپشن تحریک انصاف کے پاس موجود ہے لیکن اس عمل کا براہ راست فائدہ بھی پاکستان مسلم لیگ ن اٹھا سکتی ہے کہ وہ تحریک انصاف کی جانب سے سیاسی عدم استحکام کے الزامات کو درست قرار دیں سکیں۔قوی امکان تو یہی ہے کہ بلوچستان کا نیا وزیر اعلیٰ پاکستان مسلم لیگ ن سے ہی ہوگا لیکن نئے وزیر اعلیٰ کے لئے پاکستان مسلم لیگ ن کیا قربانی دے گی اس کے نتائج سے یقیناََ بلوچستان کی سیاسی منظر نامے پر اثرات نمودار ہونگے ۔ گو کہ پاکستان کے داخلی و خارجی معاملات متقاضی ہیں کہ سیاسی جماعتیں سنجیدگی اختیار کریں اور موجودہ سیاسی بحران کو ملکی سا لمیت پر حاوی کرنے سے گریز کریں ۔خاص کر بلوچستان پر ماضی کی سیاست اور بار بار مداخلت نے صوبے میں انتشار پیدا کئے رکھا جس کا فائدہ نام نہاد قوم پرستوں نے اٹھایا اور بھارت کو کھل کر بلوچستان میں دخل اندازی کرنے کا موقع ملا ۔ جس کے بعد پاکستان مخالف اشتہاری مہم دنیا بھر میں چلائی جا رہی ہے ۔ اس صورتحال میں سیاسی جماعتوں کو بلوچستان میں کسی سیاسی مہم جوئی میں احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہی سب کیلئے بہتر ہے۔