تحریر: شہزاد حسین بھٹی 2018 میں بھی کچھ نہیں بدلے گا۔ یقینا کچھ بھی تو نہیں بدلے گا۔ دیوانے کی بڑھک نہیں حالات بتا رہے ہیں کہ کچھ بھی تو نہیں بدلے گا۔ نہ ہی کچھ بدلنے کی کوشش ہو رہی ہے اور نہ ہی خلوص ہے بس تبدیلی کے دعووں سے کاش قوموں کی تقدیر بدلی جاسکے تو تبدیلی کے دیوان تحریر ہو جاتے۔تبدیلی ہم نے پاکستان میں کرنا تھی کر ہم صوبے تک میں نہیں پائے۔ ضمنی منہ پہ طمانچے کی صورت پڑی، پھر بلدیات میں منہ کی کھانا پڑی۔ اور اب کشمیریوں نے بھی منہ پھیر لیا۔ پھر کہہ رہا ہوں کہ 2018 میں بھی کچھ نہیں بدلے گا۔ اور بدلنا ہے بھی نہیں ۔ کیوں کہ ہم بدلنا تو چاہتے ہیں نہیں ہیں۔
عام انتخابات کے بعد سڑکیں آباد ہو گئیں لیکن پارٹی منظم نہ ہو سکی ۔ اپنی اپنی باری کے منتظر سرمایہ دار و جاگیردارمیوزیکل چیئر کا کھیل کھیل رہے تھے۔ عوام نے سوچا تیسرا نمودار ہو گیا ہے جو ہماری امیدوں کا محور بنے گا۔ لکھنے والوں نے لکھا کے عوام کے پاس ایک مثبت آپشن آ گیا ہے کہ دونوں کو مسترد کر کے تیسرے کو قبول کر لیں گے۔ عوام نے حصہ بقدرے جثہ اپنا کام کیا بھی ،نمائندگی بھی دی لیکن ان کی نمائندگی کا مذاق اڑانا شروع کر دیا گیا۔ اور حقیقی تبدیلی کے بجائے کنٹینر اور سڑکوں پہ ٹھمکوں پہ اکتفا کر لیا گیا۔ ترانے بننے لگے ۔ ہاں یہ تبدیلی ضرور آئی کہ گانے بجانے والوں کا کاروبار چل نکلا۔ حکومتی لوگ بھی مجبور ہو گئے پارٹی ترانے بنانے پہ۔ یہ تو واقعی تبدیلی آئی کہ جہاں گانے بجانے والوں کا کاروبار چکما، وہیں شامیانوں ، قناتوں والوں کی بھی چاندی ہو گئی۔ اور تو اور کیٹرنگ والوں نے بھی خوب کمایا کہ ایسی تبدیلی لائی گئی کہ ہر پارٹی مجبوراً یہ سب ہی اپنانے پہ مجبور ہو گئی۔ جلسوں کو منشور کے بجائے تفریح گاہ بنا لیا گیا۔
Change
شاید انہوں نے تبدیلی اسی کو سمجھ لیا۔ تبدیلی تبدیلی کو ایسی گردان بنا لیا گیا کہ لوگ تنگ آنا شروع ہو گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تمام ضمنی الیکشن میں بھی شکست مقدر بنی۔ جو صبح اپنے حصے میں آیا تھا وہاں بھی نت نئے تنازعات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ اور حد تو یہ کہ تبدیلی کی ایسی لہر چلی کہ مقابلے میں موجود باقی پارٹیاں بھی مقابلے سے باہر ہو گئیں۔ یعنی جہاں پہلے مقابلہ سات اور چالیس کا تھا وہاں اب بیس اور اسی کا ہو گیا۔ 31 مل گئیں 41 میں سے۔ یعنی ایک ربڑ سٹمپ اسمبلی وجود میں آ گئی جیسی ان کی خواہش تھی اپنے پائوں پہ خود کلہاڑی مارتے ہوئے ۔ اپوزیشن کا بہترین رول بھی گنوا دیا۔ مضبوط کے بجائے ایک بچگانہ اپوزیشن رہ گئی۔
اور یقینی ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں باقی کے دس لوگوں میں سے بھی کچھ حکومتی پارٹی کے ساتھ مل جائیں گے۔ یعنی اپوزیشن صرف دو یا تین ممبران پہ رہ جائے گی۔ جو بے چارے بھیڑوں میں گدھے کے مصداق پریشان ہی رہیں گے۔ تجاویز بھی دیں گے تو حکومتی سیٹوں پہ بیٹھے معمور دبی دبی سی مسکراہٹوں کے ساتھ ان کو چڑائیں گے۔ تنقید کریں گے تو بھی نقار خانے میں ان کی آواز طوطی کی مانند ہی ہو گی۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ، یعنی نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ، بے چارے بس کبھی کبھار ہی اسمبلی کو درشن کروائیں گے کہ عزت جو پیاری ہے۔
جناب 2018میں بھی کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔ یہ جوتشی نہیں کہہ رہا حالات کہہ رہے ہیں ۔ یہ کام کرنے کا طریقہ کہہ رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ جو کام کر رہے ہیں وہ کوئی بہت بہتر کر رہے ہیں۔ لیکن عوام تنگ آ گئے ہیں صرف نعروں اور تبدیلی کے ٹھمکوں سے۔ وہ جس آس میں دوڑ پڑے تھے وہ ان کو سراب نظر آ رہا ہے۔ اور وادی کشمیر کے شفاف ترین انتخابات میں انہوں نے ایک چپت رسید کر دی ہے تبدیلی کے نعروں کو، بوڑھے گھوڑوں پہ نئی کاٹھوں کو۔ لگامیں لال کر دی گئیں۔ لیکن لوگوں کو یہ باور نہیں کروا سکے۔ کہ پرانے شہسوار کس طرح نئی تبدیلی لائیں گے۔ صرف ناموں سے تبدیلی نہیں آتی تبدیلی لانے کے لیے پوری محنت کرنا پڑتی ہے۔ حلوہ کھانے کے لیے پہلے سوجی لانی پڑتی ہے ، گھی لانا پڑتا ہے اور پھر جا کے آنچ چاہیے ہوتی ہے۔ اور میٹھا جتنا ڈالیں گے اتنا حلوہ میٹھا ہو جائے گا۔ حلوہ تیار کرنا مشکل مرحلہ ہے۔
Elections
تیار حلوے پہ کھانے والے تو بہت سے مل جاتے ہیں۔ یہی کچھ عوام نے وادی کے انتخابات میں کیا کہ انہوں نے سوچا یہ تو حلوہ تیارکرنے کی زحمت ہی نہیں کر رہے۔ یہ تو تیار حلوے پہ جھپٹنے کو تیار بیٹھے ہیں۔یو ٹرن اتنے بڑھ گئے ہیں کہ چوہدری محمد سرور برطانیہ جا بیٹھے ہیں اور شاہ محمود قریش پارٹی کی باگ دوڑ سنبھالنے کو تیار بیٹھے ہیں کہ کب عمران ملک عدم روانہ ہوں اور وہ پارٹی کے سربراہ بن جائیں۔اُدھر خیبر پختوں خواہ کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے بھی حقیقی تبدیلی نہ لانے کا اعتراف کر لیا ۔ اب دیکھیں 07 اگست کو حکومت کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور وہ کیا تبدیلی لائے گا۔
تبدیلی لانے کے لیے لوگوں کی ذہن سازی پر کام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جب ایک شخص کو اپنے اچھے بُرے کے فرق کا معلوم نہیں وہ اجتماعی سطح پر اپنے حقوق کی جنگ کے لیے لیڈر کا انتخاب بھلا کیسے کر سکتا ہے۔ قومیںشعور سے پننپتی ہیںاندھی تقلید سے نہیں۔ جب تک یہ ہجوم اندھی تقلید کے کنوئیں میںگرا رہے گا یہ قوم کی وحدت میں نہیں آئے گا اور ایک قوم بننے کے لیے نسلی تعصب سے بالا ترہو کرشعور کی آنکھ سے دیکھنا ہو گا اور اپنے لیے اچھے برے حکمرانوں کے درمیاں لکیر کھینچنی ہوگی وگرنہ روش نہ بدلی تو حالات ہرگز مختلف نہیں ہوں گے ۔ یقینا دو سال بعد کے نتائج بھی کچھ اسی طرح کے ہوں گے۔ کچھ نہیں بدلے گا۔ بروں میں سے کم برے کا انتخاب ہو گا کہ اچھوں کو تو نعروں سے فرصت نہیں ہے ا ور جو تبدیلی ضمنی ، بلدیاتی ، کشمیر میں نظر آئی۔ کچھ ویسی ہی تبدیلی آپ کی اگلے عام انتخابات میں بھی منتظر ہے اور یہ کرپٹ ٹولہ ایک باری اور لگانے کے قابل ہو جائے گا۔