کراچی (جیوڈیسک) سندھ ہائیکورٹ نے شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ سندھ ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران مدعی کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ مدعی مقدمہ اور مقتول کے والد کا انتقال ہو چکا ہے، مدعی کے پسماندگان میں بیوہ اور دو بیٹیاں ہیں، تینوں خواتین بیرون ملک ہیں اور عدالت نہیں آنا چاہتیں، عدالتی نمائندہ اسکائپ یا کسی اور طرح رابطہ کر لے تو سمجھوتے کی تصدیق کر سکتے ہیں۔
سرکاری وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ سرکار نے ملزمان اور مدعی کے درمیان سمجھوتے پر اعتراض کیا تھا، اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر کی رضامندی کے بغیر سمجھوتا پیش نہیں کیا جا سکتا، مدعی کے وکلا کی قانونی حیثیت پر بینچ کے تحفظات تھے۔
اس موقع پر عدالت نے کہا کہ مقتول کے ورثا کا ایڈریس ہی کم سے کم ریکارڈ پر ہونا چاہیے۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ورثا بیرون ملک مقیم ہیں، انہیں ملزمان سے نہیں بلکہ سوشل میڈیا سے خطرہ ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کس سے خطرہ ہے کب تک چھپتے پھریں گے؟ جن سے خطرہ ہے ان کے خلاف مقدمہ درج کرائیں۔
مدعی کے وکیل نے کہا کہ سمجھوتے کے بعد سوشل میڈیا دشمن ہوگیا،کس کس سے لڑیں گے؟ ایک مرتبہ سمجھوتہ ہو جائے تو ورثا منحرف نہیں ہوسکتے، سیشن عدالت انکواٸری کرکے سمجھوتے کو دباؤ سے پاک قرار دے چکی ہے، سمجھوتا ملزمان کے وکلا نے عدالت میں پیش کیا۔
وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے دلائل مکمل ہوچکے اور تحریری دلائل بھی جمع کرادیے ہیں۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس میں نامزد ملزمان شاہ رخ جتوئی، سراج تالپور، سجاد تالپور اور غلام مرتضی لاشاری کی سزا کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
واضح رہے کہ 20 سالہ نوجوان شاہ زیب خان کو دسمبر 2012 میں ڈیفنس کے علاقے میں شاہ رخ جتوئی اور اس کے دوستوں نے معمولی جھگڑے کے دوران گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جون 2013 میں اس مقدمہ قتل کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج علی تالپور کو سزائے موت اور دیگر ملزمان بشمول گھریلو ملازم غلام مرتضٰی لاشاری اور سجاد علی تالپور کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
سندھ ہائیکورٹ نے شاہ رخ جتوئی کی سزائے موت کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر ضمانت پر رہا کیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرکے مجرم کی دوبارہ گرفتاری کا حکم دیا۔