اسلام آباد (جیوڈیسک) چند رو قبل امریکی کانگریس مین بریڈ شرمن نے کہا تھا کہ وہ شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی پر بات کر سکتے ہیں۔ کیا یہ ایک سیاسی بیان تھا اور کیا قانونی لحاظ سے ایسا ممکن بھی ہے؟
کانگریس مین بریڈ شرمن کا اپنے خطاب میں کہنا تھا، ڈاکٹر آفریدی امریکی کانگریس کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ ہم اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ جس پاکستانی نے اس اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں ہماری مدد کی، وہ آج سلاخوں کے پیچھے ہے۔ یہ بات انہوں نے ساتھ ایشین اگینسٹ ٹیرریزم اینڈ فار ہیومن رائٹس (ساتھ) کانفرنس میں پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے کہی۔
کیا شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کے بارے میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پاس دوسرے کئی خارجی مسائل ہیں، جو کہ زیادہ اہم ہیں، مگر کانگریس عام لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے اور وہ ڈاکٹر آفریدی کی مدد کو بھلا نہیں سکتی۔ اس سلسلے میں ہم سے جو ہو سکے گا، وہ ہم کریں گے۔
کانگریس مین بریڈ شرمن کا اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہنا تھا، ڈاکٹر آفریدی کو امریکا لانے کے لیے میں بہت سنجیدہ ہوں اور اس بارے میں میں ڈاکٹر عافیہ اور ڈاکٹر آفریدی کے تبادلے پر بات کرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔
ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے امریکا میں مقیم ماہر قانون برائے شہری حقوق شایان الہی سے بات کی کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ انہوں نے اس بارے میں اپنی قانونی رائے دیتے ہوے کہا، ویسے تو یہ ممکن ہے کہ ایسے معاملات میں امریکی صدر اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اسے ممکن بنا دیں مگر سیاسی اعتبار سے یہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ کیوں کہ ایسا کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ جیوری نے، جس شخص کو امریکی فوجیوں کے قتل کی کوشش میں مجرم قرار دیا ہو، اسے رہا کر دیا جائے۔ بریڈ شرمن کانگریس، وائٹ ہاس اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اس مسئلے کے حوالے سے لابی تو ضرور کر سکتے ہیں مگر عین ممکن ہے کے یہ صرف ان کا ایک سیاسی بیان ہو۔
دو روز قبل پاکستان نے بھی شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کی خبروں کی تردید کی تھی۔ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بدلے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکا کے حوالے کرنے سے متعلق انہیں کوئی تحریری درخواست موصول نہیں ہوئی اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی اندرونی یا بیرونی دبا قبول کیا جائے گا۔
گزشتہ ماہ پاکستانی عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ امریکا پاکستان سے کچھ چیزیں چاہتا ہے اور ان کے عوض وہ عافیہ صدیقی کو پاکستان لوٹانے کے لیے تیار ہے۔ اس بیان کے بعد پاکستان میں یہ افواہیں زور پکڑ گئی تھیں کہ پاکستان نے شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم اس وقت پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ عافیہ صدیقی کے بدلے شکیل آفریدی کی رہائی کی پیش کش نہیں کی گئی۔