ہمارے وزیر خارجہ اقوام متحدہ میں ایسا خطاب کر آئے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔ ایک اور کمال شاہ محمود قریشی نے کردیا اور یہ بھی عندیہ دیا کہ ”شکیل آفریدی” کے معاملے پر بات کی جاسکتی ہے۔ وزیر خارجہ نے فرمایا، شکیل آفریدی کا فیصلہ سیاست نہیں عدالت کرے گی۔ یہ وہی نکتہ ہے، جس حوالے سے راقم اپنے کئی کالموں میں لکھتا رہا کہ خیبر پختونخوا میں سابق فاٹا کے ضم ہونے اور ایف سی آر قانون کالعدم ہونے کے بعد شکیل آفریدی کے لیے عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں اپیل کے دروازے کھل سکتے ہیں، ورنہ وزیر خارجہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ مملکت عدالتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتی، عدلیہ ”آزاد و خودمختار” ہے۔ لیکن ان کا یہ عندیہ دینا کہ شکیل آفریدی پر بات کی جاسکتی ہے تو اس کو زیادہ گھمانے کے بجائے دوٹوک انداز میں بھی کہا جاسکتا تھا کہ ”دونوں ممالک کے درمیان مجرموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔
ایسا نہیں کہا گیا بلکہ معاملہ عدالت پر چھوڑ دیا گیا۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر عافیہ کی امریکا میں سزا اور رہائی کے حوالے سے ماضی کی حکومتوں نے کوئی کوشش نہیں کی۔ یہاں تک کہ اوباما کی مدت صدارت پوری ہونے سے قبل امریکی قانون کے مطابق اگر حکومت پاکستان باقاعدہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی درخواست دے دیتی تو وہ آج پاکستان میں ہوتیں۔
جب ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر امریکی صدر چراغ پا ہورہے تھے تو اُس وقت بھی ٹارگٹ کلر ڈیوس کا معاملہ ”عدالت” میں تھا۔ پاکستان کے تمام حلقوں کی جانب سے کہا بھی گیا کہ ڈیوس کو پاکستان تو ہر صورت رہا کرے گا، اس لیے اس موقع سے فائدہ اٹھاکر عافیہ کو رہا کرایا جاسکتا ہے، لیکن یہاں ایسا کچھ نہ ہوا اور ڈیوس پاسپورٹ اور عدلیہ کی اجازت کے بغیر سرکاری ”پروٹوکول” میں پاکستان سے رخصت کردیا گیا۔
ڈاکٹر عافیہ کو پڑوسی ملک کی قید میں رکھا گیا تھا۔ 2013 میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی۔ اُس وقت امریکا اُن کی رہائی کا معاہدہ افغان طالبان سے طے کررہا تھاکہ امریکا اپنے فوجی کے تبادلے میں عافیہ کو رہا کردے گا۔ معاہدے کے مطابق عافیہ کو افغانستان لایا جائے گا اور انہیں درہ? خیبر کے راستہ رہا کیا جائے گا، جہاں امریکی فوجی ”برگ ڈال” کے تبادلے کے بارے میں وہ ایک پریس کانفرنس میں اعلان کریں گی اور ”برگ ڈال” کو بھی اسی وقت رہا کردیا جائے گا۔
معروف صحافی ایوان رِڈلے کے مطابق امریکیوں نے آخر وقت ایک درخواست کی کہ ویڈیو کے ذریعے ثابت کیا جائے کہ ”برگ ڈال” اب بھی زندہ ہے۔ افغان طالبان نے یہ درخواست منظور کرلی اور اس کی ویڈیو بھیج دی۔ لیکن عین وقت پر امریکی فوجی ”برگ ڈال” کے تبادلے میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی میں ایسی قوتیں اثرانداز ہوگئیں جو ان کے پاکستان سے امریکا کے حوالے کیے جانے پر مسلسل تردید کرتی رہتی تھیں۔ 2013میں ڈاکٹر عافیہ اور امریکی فوجی کے تبادلے کی ڈیل کامیاب نہ ہوسکی، تاہم 2015 میں افغان طالبان نے امریکی فوجی برگ ڈال کو گوانتاناموبے میں قید اپنے پانچ ساتھیوں کے بدلے رہا کردیا۔
شکیل آفریدی کو جب اڈیالہ جیل منتقل کیا جارہا تھا تو افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ عافیہ کی رہائی یا تبادلے کے لیے پاکستانی حکومت امریکی صدر کو خط لکھے گی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وزیراعظم عمران نے بھی اپنی انتخابی مہم و منشور میں ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے کا اعلان کیا تھا۔ پی ٹی آئی نے دیگر پاکستانی قیدیوں کی وطن واپسی کا وعدہ بھی انتخابی منشور میں شامل کیا ہوا تھا۔ وزیراعظم کو بارہا اُن کے متعدد وعدے یاد کرائے جارہے ہیں، جس میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا معاملہ بھی شامل ہے۔ اب جب کہ وزیر خارجہ امریکا میں بیٹھ کر شکیل آفریدی پر ”بات چیت” کا عندیہ دے چکے تو اس کے بعد کوئی جواز معنی نہیں رکھتا کہ پاکستان ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی بات نہ کرے۔ دنیا جانتی ہے کہ انہیں بے بنیاد الزامات میں امریکی عدالت نے86 برس کی سزا دی۔ جیل میں ناروا سلوک رکھا گیا۔ جو سلوک اُن کے ساتھ کیا جاتا ہے، اس کے لیے انسانی حقوق کی بدترین پامالی تو چھوٹا سا ”لفظ” ہے۔ اگر ایسا سلوک امریکی جاسوس شکیل آفریدی، ریمنڈ ڈیوس اور جنرل جوزف کے ساتھ کیا جاتا تو امریکی غصہ سات آسمان کو چھورہا ہوتا۔
سابق فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام اور (کالعدم) ایف سی آر کے تحت دی جانے والی سزائوں کے خلاف شکیل آفریدی اب ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے۔ شکیل پر 1901 کے برطانوی قانون ایف سی آر کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور 33 برس کی سزا کالعدم تنظیموں سے روابط رکھنے کے الزام میں سزا سنائی گئی۔ اُس نے 2014میں فاٹا ٹریبونل میں سزا کے خلاف درخواست دائر کی تھی، جس کا ہنوز فیصلہ نہیں سنایا جاسکا۔ جنوری 2018 تک 30 مرتبہ درخواست کی سماعت ملتوی ہوئی تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے شکیل آفریدی کے حوالے سے امریکا کو قانون کا احترام کرنے کا مشورہ پاکستانیوں کے لیے خودفریبی کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ جس طرح سابق حکومتوں نے امریکا کے لیے ماورائے عدالت و قانون ڈالروں کے عوض پاکستانیوں کو امریکا کے حوالے کیا۔ اس کا اعتراف ہمارے سابق صدر مشرف اپنی کتاب میں کرچکے ہیں۔ پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں جہاں عدالت کے فیصلے کے بغیر کسی بھی شخص کو رہا کیا جاسکے۔ لیکن چشم فلک یہ نظارہ بھی دیکھ چکی کہ امریکا و افغانستان کے لیے کئی افغان طالبان رہنمائوں کو حراستی مراکز سے عدالتی کارروائی کے بغیر رہا کیا جاچکا ہے۔ یہاں قانون سب کے لیے یکساں نہیں۔ اربوں کھربوں روپے کی کرپشن کرنے والے قانون کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاکر ضمانت پر رہائی پا جاتے ہیں اور بھوکے پیٹ کے لیے ایک روٹی چوری کرنے والا برسہا برس جیل میں سڑرہا ہوتا ہے۔
قصہ مختصر کہ دنیا بھر میں قانون کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر چلتا ہے۔ اس کا تجربہ موجودہ حکومت سے زیادہ اور کس کو ہوگا۔ اس وجہ سے شکیل آفریدی کو عدالتی معاملہ قرار دینے کے باوجود حکومت سمجھتی ہے کہ اس پر بات ہوسکتی ہے تو کیا وہ اس کی رہائی کے بدلے ”کالا باغ” بنائیں گے۔ یقیناً ایسا نہیں ہوگا، بلکہ قانون کے نام پر وہ سب کچھ کیا جاسکتا ہے جو آئین میں لکھا بھی نہ ہو۔ عوام کے احتجاج کی کسی کو پروا نہیں ہے۔ ختم نبوتۖ قانون میں ترمیم کے ذمے دار ابھی تک قانون کے شکنجے میں نہیں آئے۔ 12 مئی، بلدیہ ٹائون، سانحہ? سٹی کورٹ، ماڈل ٹائون، مہنگائی، لوڈشیڈنگ سمیت ان گنت سانحات و معاملات پر پاکستانی عوام احتجاج کرتے ہیں اور پھر اگلے دن اخبارات میں تصاویر دیکھ کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ شکیل آفریدی کا معاملہ جیسا بھی طے ہوتا ہے، اس پر بھی کوئی احتجاج کرے یا مظاہرے۔ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر سب کچھ بھول جانا ہے۔ اس لیے حکومت وقت سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ شکیل آفریدی کے حوالے سے جو وعدے وعید کر آئے ہیں، اس میں وزیراعظم پاکستان کے اُس وعدے کو یاد رکھا جائے، جس میں انہوں نے عافیہ کو وطن واپس لانے کا اعلان کیا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ کے لیے شکیل آفریدی کے تبادلے کا سودا گھاٹے کا نہیں ہوگا۔ اگر یقین نہیں تو اسد عمر سے پوچھ لیں، وہ بھی کہیں گے کہ ایسا فیصلہ ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔