اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ پاکستان ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے پر امریکہ سے بات کر سکتا ہے۔
ایک انٹرویو میں پاکستانی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا، “انہیں (آفریدی کو) پاکستان میں ایک خاص نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں پاکستان میں ایک غدار سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ امریکہ میں انہیں ایک دوست کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے اس بارے میں باہمی اختلاف کو کم کرنا ہوگا۔”
تاہم ساتھ ہی شاہ محمود قریشی کا یہ بھی کہنا تھا کہ شکیل آفریدی کے مستقبل کا فیصلہ سیاست نہیں بلکہ عدالت کرے گی۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ گئے تھے اور منگل کو وہ واشنگٹن ڈی سی میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات کریں گے۔
اپنے انٹرویو کے دوران شاہ محمود قریشی نے اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا، “ہمارے ہاں ایک قانونی طریقۂ کار ہے اور ۤآفریدی بھی اس عمل سے گزرے۔ انہیں اپنے مقدمے کی وکالت کے لیے موقع فراہم کیا گیا۔ انہیں جرم کا مرتکب قرار دیا گیا، سزا دی گئی اور اس وقت وہ سزا بھگت رہے ہیں۔”
پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان یہ توقع کرتا ہے امریکی اس کے قانونی عمل کا احترام کریں گے۔
دوسری طرف بعض ناقدین اور امریکی حکومت کے اعلیٰ عہدیدار اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ہیں کہ اۤفریدی کو منصفانہ ٹرائل کا موقع فراہم کیا گیا اور ان کا خیال ہے کہ انہیں غیر منصفانہ طور پر سزا دی گئی۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ۤآفریدی کے معاملے پر کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے سردمہری کا شکار پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کی توقع کی کی جاسکتی ہے۔
پیر کو وائس ۤآف امریکہ گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد میں قائم ’انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز‘ کے شعبہٴ امریکہ کے ڈائریکٹر نجم رفیق کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ڈاکٹر آفریدی کا معاملہ ایک حساس معاملہ تھا جو پاکستان امریکہ کے تعلقات میں ایک خلش پیدا کر رہا تھا اور امریکی عرصے سے یہ چاہتے تھے کہ پاکستان ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کردے۔
اںہوں مزید کہا، “پاکستان کے وزیر خارجہ نے امریکہ میں شکیل آفریدی کے حوالے سے جو بیان دیا ہے اسے اس پس منظر میں آ پ دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا چاہتا ہے اور وہ حتی الامکان کوشش کرے گا کہ کچھ معاملات پر امریکہ کو جس حد تک ممکن ہو رعایت دی جا سکے تاکہ دونوں ملکوں کی تعلقات آگے کی جانب مثبت انداز میں آگے بڑھ سکیں۔”
نجم رفیق کا کہنا تھا کہ مائیک پومپیو کے ساتھ ملاقات سے ایک روز قبل یہ بیان پاکستان کی طرف سے ایک عندیہ ہو سکتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ تمام معاملات پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے مبینہ طور پر القاعدہ کے روپوش سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی تصدیق کرنے میں امریکی ‘سی آئی اے’ کی معاونت کی تھی۔
مئی 2011ء میں امریکی کمانڈوز کی خفیہ کارروائی کے میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکام نے شکیل آفریدی کو حراست میں لیا تھا اور بعد ازاں خیبر ایجنسی کی ایک عدالت نے انہیں ریاست مخالف سرگرمیوں کا مرتکب قرار دیتے ہوئے 33 برس قید کی سزا سنائی تھی۔
بعد ازاں شکیل آفریدی کی اپیل کی سماعت کرنے والی ایک عدالت نے ان کی سزا کم کرکے 23 سال کر دی تھی۔ شکیل آفریدی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں اپنی سزا کاٹ رہے ہیں اور امریکی حکام بارہا ان کی رہائی کا مطالبہ کرچکے ہیں۔