مرزا نوشہ بہت وقت تک اپنا تخلص اسد لکھتے رہے ہیں۔اس زمانے میں ایک اور اسد نامی صاحب نے تخلص اسد استعمال کرنا شروع کیا ۔ مرزا نے اس کے شعر پڑھے یا سنے جو کے ہلکے خیال اور اچھے نہ تھے جبکہ وہ اسداللہ خاں کے نام سے منسوب ہو رہے تھے اور ان کے اچھے شعر اس اسد کے نام سے تو انہوں نے اپنا تخلص اسد سے غالب رکھ لیا اور اپنی الگ پہچان بنا نے میں کامیاب ہو گئے۔ اس اسد کا نام تو آج ڈھونڈنے سے بھی مشکل ملے پر مرزا نوشہ آج تمام اردو شناسوں کی روح کو متاثر کرتے ہیں جو بھی انکا شعر پڑھتا یا سنتا ہے گرویدہ ہو جاتا ہے۔اسی طرح سرائیکی میں بھی دو بڑے نام ایک ہی تخلص سے مشہور ہوئے شاکر شجاع آبادی اور شاکر مہروی۔دونوں سرائیکی زبان و ادب میں الگ پہچان اور مقام رکھتے ہیں مگر یک تخلص ہونے کے سبب شعر کس کا ہے پہچاننا اب بھی مشکل ہے۔
میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ شاکر شجاع آبادی اصل میں شاکر مہروی کے کلام سے مشہور ہوئے میں تو اس بات کا بھی معترف ہوں کہ سرائیکی شاعری میں حضرت خواجہ غلام فرید کے بعد جو شہرت شاکر شجاع آبادی کے نصیب میں آئی کسی دوسرے شاعر کو نہ مل سکی۔ بحثیت نقاد اگر دیکھا جائے تو شاکر مہروی اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں ان کا الگ مرتبہ ہے۔آرائیں فیملی سے تعلق رکھنے والے شاکر مہروی ضلع مظفر گڑھ کے مشہور علاقہ سنانواں میں 27 اگست 1966 ء میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام محمد رمضان ہے جبکہ ان کے استاد محترم فریدِ ثانی احمد خان طارق نے ان کو شاکر کا تخلص عطا کیا ۔ تاجدارِ گولڑہ پیر مہر علی شاہ سے نسبت میں اپنے نام کے ساتھ مہروی لکھنے لگے۔
اس طرح ان کا اصل نام محمد رمضان اور قلمی نام شاکر مہروی ہوا۔زندگی کی دوسری دہائی کے تیسرے سال میں ہی شعر کہنا شروع کر دیا ۔صوفی بزرگ شاعر احمد خان طارق نے ان کے شعر سنے تو انکو اپنی شاگردی میں لے لیا۔احمد خان طارق کی شفقت سے ان کے قلم میں تخیل میں مزید پختگی آئی اور وہ نوجوان شعراء میں انفرادیت حاصل کرنے لگے۔ قدرت کی مرضی جس کو جتنا وقت دے ۔ بزرگ کہتے ہیں اچھے لوگ جلد منزل تک پہنچ جاتے ہیں اس لئے دنیا میں اچھے لوگوں کی کمی بھی ہے۔ شاکر مہروی بھی زیادہ وقت تک سانس نہ لے سکے ۔26 فروری 2010ء میں اس جہاں سے رحلت فرما گئے۔ان کی کل جائیداد ان کی آٹھ بیٹیاں اور ایک بیٹا عمران شاکر مہروہ ہی ہیں۔ شاکر مہروی نے تمام اصناف ِ سخن میں طبع آزمائی کی اور سب میں عزت پائی مگر سب سے زیادہ خالص سرائیکی صنف ادب ” ڈوہڑا” سے مشہور ہوئے اب تک ان کے تیس سے زیادہ ڈوہڑے کے کتابچے آ چکے ہیں۔نمونہ کلام دیکھیں
توں یاد رکھیں سُکھ سفریں وچ کُئی شئے پئی کھٹ میں یاد آساں کہیں ثابت شئے کوں کہیں ویلے لگا کہیں جاء بٹ میں یاد آساں یا شام کوں ولدے پکھیاں دا ، ڈٹھو کہیںجاء جٹ میں یاد آساں تیڈے ہتھ دا شاکر شیشہ ہاں جڈاں ویساں ترٹ میں یاد آساں
اس کے علاوہ ان کی بڑی تصنیفات چار ہیں جن میں پہلی” میں یاد آساں” اور آخری” بس توں” نے بہت شہرت حاصل کی۔ شاکر مہروی خوبصورت اور خوب سیرت انسان تھے۔زمانہ اچھے انسانوں کی قدر ہمیشہ انکے بعد کرتا ہے ۔ اس لئے وہ سرائیکی وسیب سے ناراض رہے۔ جس کا اظہار کئی مشاعروں میں انہوں نے کیا۔صاف گو اور اسٹیٹ فارورڈ شاعر تھے دل میں آئی بات کا اظہار بڑی برجستگی سے کیا کرتے تھے۔ ان کا انداز بیان ایسا تھا کہ سننے والا ان کا دیوانہ ہو جاتا تھا۔ جس محفل میں جاتے تھے وہ محفل یاد گار اور عظیم بن جاتی۔شاکر مہروی کی شاعری میں فیض احمد فیض کی جھلک بھی کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ شاکر مہروی نے اپنے وطن کا گیتا گایا ہے۔
وطن باسیوں کے دلوں کی آواز کو قلم سے لیک کر انکے کانوں اور آنکھوں تک پہنچائی ہے۔انقلاب کا نعرہ بلند کیا ۔وسیب کی محرومیوں اور بدحالیوں کو موضوعِ سخن بنایا۔ تشبیہات کا الگ اور نیا جہان آباد کیا۔سادہ لفظوں اور چھوٹی بحور میں زیادہ شعر کہے۔ترفع کے تمام عناصر ان کی شاعری میں موجود ہیں۔ گیت نگاری میں بھی اپنی الگ پہچان بنائی۔ انکے گیت کئی گلوکاروں نے گائے اور ایک مدت تک سرکاری ریڈیو سے بھی نشر ہوتے رہے۔
افسوس صد افسوس کہ قلم کار سے نہ تو کسی نے اجازت لی اور نہ ہی کوئی معاوضہ دیا۔ نظم نگاری میں بھی سکہ منوایا ۔ ان کی مکالماتی نظم انسان اور زندگی سے مکالمہ کر رہی ہے۔ ان کی شخصیت اور فن کو بیان کرنے کے لئے کئی دفتر لگیں گے المختصر شاکر مہروی جیسے عظیم شاعر سرائیکی شاعری کو بہت کم نصیب ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد سرائیکی وسیب نوحہ کناں ہے۔ یہاں تک کے ان کے استادِ ذی وقار مکرم احمد خان طارق نے بھی ان کی وفات پر نوحے لکھے۔