تحریر: عرفانہ ملک صنف نازک کی بات آئے تو ہمارے ذہنوں میں عورت کا ہی نام آتا ہے مگر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسے کبھی بھی صنف نازک کا تصور بھی نہیں سمجھا گیا ہمیشہ اس کے ساتھ ہر مقابلے میں برابری کا رویہ اختیار کیا گیا نہ کبھی کسی نے یہ سوچا کہ عورت مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی اسے سیدھا کرتے کرتے مرد خود ٹوٹ جائے گا۔ مگر وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔پھر قرآن وحدیث نے بھی اسے ایسا مقام بخشا جوکسی اور مذہب میں نہیں۔
اسلام سے پہلے تو سب ہی جانتے ہیںکہ عورت کی نہ عزت نہ وقار کچھ بھی تونہ تھا۔مختلف مظالم کا شکار عورت کو اسلام نے ہی ایک مقام دیا۔قرآن پاک کے نزول کے بعد ان سب مظالم پر پابندی عائد ہوگئی۔قرآن اور رسولۖ نے اسے وہ حیثیت بخشی جوقیامت تک قائم رہے گی مگر جو لوگ اسلا م کاپرچار کرتے ہیں۔شاید انہوںنے اسلام کو پوری طرح نہیں سمجھا۔
Islam
اس مذہب میں قاعدے قانون کے علاوہ ایک اور چیزبھی ہے۔جوان پانچ ارکان سے ہٹ کرہے۔وہ ہے انسانیت اگر ہمارے معاشرے میںیہ الفاظ نکال دیے جائیں۔اور اسلام کے پانچ رکن چھوڑ دیے جائیں تو کیا اسلام قائم رہے گا پوری کائنات اسی لفظ کے گرد گھوم رہی ہے۔کہ سب سے پہلے انسان کو انسان سمجھا جائے اس کے ساتھ وحشیانہ اوردل سوز رویہ اختیار نہ کیاجائے خود اللہ نے فرمایا ”جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا”۔کوئی عزت کے نام پر توکوئی غیرت کے نام پر۔توکوئی پیار کے نام پر توکہیں جائیداد کے تنازعے پر قتل کے وجوہات روز بروزبڑھتی جارہی ہیں۔ کہیں عورت پر تیزا ب پھینکاجارہاہے۔تو کہیں زندہ جلایا جارہاہے۔ظلم تو وہی ہیں صرف شکلیں تبدیل ہوچکی ہیں،عورت ایک چھپی ہوئی چیز کانام ہے۔
جس کامطلب چاردیواری ہے اس مہنگائی کے دورمیںتو یہ ممکن نہیں کہ صرف مرد کام کرے۔یا مزدوری اب عورت کاکام کرنا آپ کی ترقی ہے۔یا مجبوری دونوں صورتوں میںمسئلہ ایک ہی ہے۔پیٹ پالنا اس صنف نازک کوبھی مرد کے شانہ بشانہ کام کرناپڑتاہے۔ہر شعبہ اس کے بغیر ادھوراہے،چاہے سکول ہو یاآفس یا مدرسہ جہاںنظرڈالیں اس کی کارکردگی موجودہے۔ادھر عورت کوایک بات جاننابہت ضروری ہے کہ جب وہ گھرسے نکلتی ہے تو اپنے گھروالوں کی عزت بھی ساتھ لے کر نکلتی ہے۔
Hijab
اس عزت کو پامال ہونے سے بچانااس کا پہلا فرض ہے پھر اسلام نے بھی اسے ایسامقام دیاہے جس کی پاسداری اس کو ہرحال میںکرنی چاہیے۔اوراس انٹرنیٹ کے دورمیں جہاں کچھ بھی پردے میںنہیں تو عورت کا حجاب کیونکر قائم رہے گا۔وہ اپنی پاکدامنی کا خود خیال کرے، جب ہم اپنے ضمیر سے ڈرنا چھوڑ دے تو ہر حادثے کا خوف بھی ختم ہوجاتاہے۔خوف بذات خودایک حادثہ ہے جو اطلاع دیے بغیر نمودارہوتاہے۔
انسان اپنے آپ سے اتنی محبت کرتاہے کہ دوسروں کو عدم توجہ کا شکار کردیتاہے۔اورضمیر کا خوف ختم کرکے ایسے حادثے کو جنم دیتاہے۔جو رہتی دنیا تک دہرایاجائے۔قندیل بلوچ کے متعلق کہاجاتاہے۔کہ وہ کم وقت میں جلدی شہرت کی بلندیوں کو چھونا چاہتی تھی۔وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیںتھی،مگر اس کی شہرت کو دیکھنے والے توضرور سمجھدارتھے شاید اس کا طرزانداز غلط تھا مگر اس کا انجام یہ تو نہ تھا۔جوہواجینے کا حق ہم کسی سے نہیںچھین سکتے۔بھائی کو اسکی یہ شہرت نہ بھائی ،اور اس نے اسے مار کر ایک اور شمع گُل کردی۔