لاہور میں چند روز قبل بہت افسوس ناک واقعہ پیش آیاجوزف کالونی کے رہائشی ساون مسیح کے خلاف شاہد عمران نامی شخص نے مبینہ شان رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں گستاخی کا مقدمہ درج کروایا،اس واقعہ کے بعد علاقہ میں شدید کشیدگ کی صورتحال پیدا ہوگئی پھر شرپندوں نے ایک عیسائی ملزم کی سزا ساری بستی کو جلا کر دے دی اور اس طرح سے اپنا ایمان ”پختہ” کر لیا۔
جوزف کالونی میں مسیحی برادری کے گھروں کو سر عام نذر آتش کیا جاتا رہا اور موقع پر موجود پولیس کھڑی تماشی دیکھتی رہی میڈیا ان شرپسندوں کو ”مشتعل افراد” کا نام دیتا رہااگر کوئی شان رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں نعوز باللہ گستاخی کرنے کا مرتکب ٹہرتا ہے تو اس کے لئے ہمارے پاس قانون میں سخت سزا موجود ہے کسی ایک فرد کی سزا پوری آبادی کو راکھ کر کہ دینا کہاں کا انصاف ہے۔
نبی مہربان حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات ہرگز یہ نہ تھیں اور دین اسلام کے پیروکار کا ہرگز یہ شیوا نہیں رہا ۔۔۔شرپسند افراد کا یہ بد ترین فعل کسی طرح بھی انہیں اسلام کا پیروکار ثابت نہیں کرتا اس سے پہلے بھی اس طرح کہ بے شمار واقعات پیش آتے رہے ہیں اس طرح کے افسوسناک واقعات کی روک تھام کے لئے حکومت یا کسی بھی ادارے نے کوئی بھی اقدام نہیں کیا توہین رسالت کے قانون کے موجود ہونے کے باوجود وہ کیا وجوھات تھیں۔
Police
یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا یقینا اس طرح کے واقعات پوری دنیا میں ہمارے دین اور ہمارے ملک کے متعلق کوئی مثبت منظر کشی نہیں کر رہے۔۔ہم کیوں بندگان خدا پر خدا کی زمین تنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں!!!اسلام تو کفار کے ساتھ جنگ کی صورت مین بھی جنگ کے کچھ اصول وضع کرتا ہے بستیوں میں قتل عام ،گھروں کو نذر آتش کرنا دین اسلام نے ان افعال کو سختی سے ناجائز قرار دیا ہے۔اس افسوسناک واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اس واقعے میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نا اہلی کھل کر سامنے آتی ہے۔
جہاں اس واقعے کے پیش آنے میں پولیس قصور وار ہے وہیں مقامی علماء کا آگے بڑھ کر اس شدید اقدام کو نہ روکنا بھی کم علمی اور بصیرت کی کمی کا ثبوت ہے جس سے دن بہ دن ہم محروم ہوتے جا رہے ہیں!!جب اس طرح کے واقعہ کے پیش آنے کا خدشہ موجود تھا تو کیا ہی اچھا ہوتا علماء اور علاقے کے معززین حضرات آگے بڑھ کر حقائق تک پہنچتے اور ملزم کو سزا دلوانے میں کردار ادا کرتے لیکن!! افسوس سب نے اس موقع پر خاموش تماشائی بننے کو ترجیح دیا۔
اس بد ترین واقعے کے بعد وزیر اعلی پنجاب کا فوری نوٹس لینا اور امدادی رقم کا اولان کرنا قابل ستائش ہے،،،لیکن سیاسی پارٹیوں کا اس جلی ہوئی بستی پر اپنی دکان چمکانا سمجھ سے بالا تر ہے…میڈیا نے بھی اس موقع پر بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا بار بار جلے ہوئے گھر دکھانا اور مسیحی برادری کی مدد کرنے کی بجائے انھیں اکساتا ہوا نظر آتا ہے۔۔۔۔!اس طرح کے مناظر بار بار چلا کر ریٹنگ تو بڑھائی جا سکتی ہے لیکن دنیا کے سامنے پاکستان کی کوئی مثبت منظرکشی نہیں کی جا سکتی!!اس واقعے میں ملوث شرپسندوں کے لئے بس یہی کہا جا سکتا ہے …۔شرم تم کو مگر نہیں آتی!!