تحریر : مسز جمشید خاکوانی ریلوے حادثے کی محکمانہ کاراروائی ہو رہی تھی جب چوکیدار کی باری آئی تو اس نے دس مرتبہ ایک ہی بات دہرائی اور کہا۔”رات اندھیری تھی حضور !آگے لائن ٹوٹی ہوئی تھی میں نے بار بار لالٹین ہلائی لیکن مال گاڑی کے ڈرئیور نے رتی بھر توجہ نہ دی ۔”جب اسٹیشن ماسٹر اور چوکیدار علیحدہ ہوئے تو اسٹیشن ماسٹر بولا۔”شاباش! تم نے تو کمال کر دیا ۔انجینئر صاحب نے مختلف طریقوں سے پوچھا مگر تم نے ایک ہی بیان دیااب تم پر کوئی زمہ داری عائد نہیں ہوتی ۔”مہربانی ہے جناب !لیکن میں تو سارا وقت ڈرتا ہی رہا اگر انجینئر صاحب پوچھ بیٹھے کہ لالٹین روشن بھی تھی کہ نہیں؟تو میں تو کہیں کا نہ رہتا۔” جانے کس زمانے کی بات ہے جب چوکیدار کی یہ سوچ تھی کہ میں کہیں کا نہ رہتا ۔یہاں تو ریلوے کے وزیر اس بات پر خوش ہیں کہ پل ٹوٹنے کا حادثہ کسی طرح تخریب کاری کا نتیجہ ثابت ہو جائے ۔دنیا میں کہیں ایسا سانحہ ہو جس میں ڈیڈھ سو قیمتی جانیں ضائع ہو جائیں تو وزیر اپنی زمہ داری جانتے ہوئے فوراً مستعفی ہو جاتے ہیں اور ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔
لوڈ شیڈنگ اور پانی کی کمیابی کی وجہ سے ہزار سے اوپر جانیں چلی گئیں تو بھی کراچی میں ککھ نہیں ہلا بلکہ ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہا گیا رمضان میں مرے ہیں بخشے گئے ۔سنا تھا ”کے الیکٹرک”کے خلاف کاروائی ہوگی مگر ذرائع کے مطابق ابھی ”نیپرا” کا کے الیکٹرک کے خلاف کاروائی کا کوئی ارادہ نہیں اسکی وجوہات یہ بیان کی جاتی ہیں کہ ملک کی اہم سیاسی شخصیات کے کاروبار اور ٹھکانے خلیجی ممالک میں ہیں اور ”کے الیکٹرک ” کو چلانے والا ”ابراج گروپ ” بھی خلیج میں وسیع اثر و رسوخ رکھتا ہے اس گروپ کے چیف ایگزیکٹو سید عارف عباس نقوی ہیں جن کے خلیجی ممالک کے سربراہوں سے ذاتی تعلقات ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ابراج گروپ کے پارٹنرز میں دو ہندو بھی شامل ہیں دیوندر سکند کا تعلق کینیا سے ہے اور نارائن راج گوپال بھارتی شہری ہے وہ انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹس آف انڈیا کا ممبر بھی ہے۔
دوسری طرف ادی فریال تالپور نے بھی اس کمپنی میں سرمایہ کاری کی ہے اس تجارتی گروپ کے تمام اعلی عہدوں پر فائز بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کے ساتھ روابط ہیں زاتی مراسم ہیںاس لیئے کے الیکٹرک میں اعلی عہدوں پر بعض وزرا اور سیاستدانوں کے سفارشی موجود ہیں۔جنرل پرویز مشرف نے 2005 میں ”کے ای ایس سی ” اس کمپنی کے حوالے کی تھی لیکن 2009 میں اس وقت کی حکومت نے ایک ترمیمی معاہدہ کیا تھا جس کی شرائط بہت خوفناک تھیں نیب نے کے الیکٹرک کے ساتھ اس معاہدے پر 12 مارچ 2012 کو اس بات پر نوٹس لیا تھا کہ وزارت پانی و بجلی اور نیپرا اس کمپنی کو ناجائز طور پر مرعات دے رہے ہیں بجلی کے نرخ بھی ناجائز طور پر بڑھائے گئے ہیں اس سارے معاملے سے پرائیویٹائزیشن گروپ کو لاعلم رکھا گیا جس کے ساتھ 2005 میں معاہدہ ہوا تھا کیونکہ ابراج کمپنی نے غیر قانونی طور پر ”میسرز جوماعیہ گروپ ” کو اپنا حصہ دار بنا لیا جو کہ سراسر غیر قانونی ہے۔
Supreme Court
ٹرانسپیرنٹی انٹر نیشنل پاکستان نے بھی سپریم کورٹ آف پاکستان میں پٹیشن دائر کی تھی جو سماعت کے لیئے منظور بھی ہو گئی تھی لیکن ابھی تک زیر التوا ہے اس پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ ” کے ای ایس سی ” ان سات ہزار ملازمین کو بحال کیا جائے جن کو کمپنی نے ناجائز طور پر خلاف قائدہ نکال دیا تھا ۔کمپنی نے اپنے ایجنٹوں کو زائد بل وصول کرنے کے لیئے جو ای میل کی تھی وہ روزنامہ امت سمیت اس زمانے کے تمام اخبارات میں شائع ہوئی تھی لہذا وفاقی حکومت ہو یا صوبائی یا نیپرا کے اراکین ”کے الیکٹرک ” کے خلاف کاروائی کرتے ڈرتے ہیں اب جولائی میں مون سون شروع ہونے والا ہے کراچی میں بجلی کی سپلائی بحال رکھنے کے لیئے ،کے الیکٹرک کے پاس ضروری مٹیریل اور انتظامات موجود نہیں ہیں ذرائع کے مطابق ادارہ پیسے بچانے کے لیئے ہزاروں تجربہ کار ملازمین کو فارغ کر چکا ہے ان کی جگہ مینٹینیس کے شعبے سے ڈیلی ویجز ایسا اناڑی سٹاف بھرتی کیا گیا ہے جسے تین دن تک فالٹ کا ہی پتہ نہیں چلتا الیکٹرک کے ناقص انتظامات کے سبب کراچی میں مزید جانی نقصان ہو سکتا ہے۔
ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیئے عملے کو باقائدہ مون سون سے پہلے تربیت دی جاتی تھی انہیں بتایا جاتا تھا کہ بارشوں کے دوران پیدا ہونے والی ہنگامی صورت حال سے کیسے نمٹنا ہے خود کو کرنٹ سے کیسے بچانا ہے اور کنزیومرز کو بجلی کی ترسیل کیسے ممکن بنانی ہے ویسے دیکھا جائے تو ہم بہت ہی ناشکرے لوگ ہیں جو نادر و نایاب خیالات ہمارے ہاں پائے جاتے ہیںوہ شائد ہی دنیا میں کہیں اور ہوں بھئی ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ تجربہ کار سٹاف کو نکال کر ناتجربہ کاروں کے لیئے آسامیاں پیدا کی گئیں ظاہر ہے تجربہ کار اسٹاف کے نخرے آسمانوں پر ہوتے ہیں سو ان کا دماغ سیدھا رکھنے کے لیئے ناتجربہ کار رکھ لیئے گئے کبھی نہ کبھی تو ان کو بھی تجربہ ہو ہی جائے گا تنخواہ بھی کم لیں گے اور ہاتھ بھی سیدھا ہو جائے گا
اگر اس سارے تجربے میں ہزار دو ہزار جانیں کام آ گئیں تو رونا کس بات کا ؟اگر ہمارے ہاں قیمتی ترین لوگوں کے (قیمت تو ہر جان کی ہوتی ہے مگر جن پر قوم کا پیسہ لگا ہو جو کئی برسوں کی ٹریننگ اور محنت کے بعد افسر بنتے ہیں ) اگر ان کے سر کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلی جا سکتی ہے تو باقی عوام تو ویسے بھی ٹکے سیر بکتی ہے ہاں ٹکے سے یاد آیا سپریم کورٹ کی طرف سے ریمارکس میں کہا گیا ”نیشنل ایکشن پلان ایک مذاق ،ٹکے کا کام نہیں ہورہا ” اور سپریم کورٹ سے یاد آیا خبریں کی ہی خبر تھی کرپٹ مافیا معزز ججوں سے بھی ہاتھ کر گیا سپریم کورٹ کے ججوں کے لیئے خریدے گئے جنریٹرز میں گھپلے کا انکشاف ہوا ہے۔
Corruption
چیف سیکرٹری سندھ نے نوٹس لے کر محکمہ اینٹی کرپشن کو انکوائری کا حکم دے دیا ہے تفصیل اس کی یہ ہے کہ جسٹس امیر ہانی مسلم کی رہائش گاہ پر جنریٹر نصب کیئے بغیر ٹھیکیدار سرکاری خزانے سے پیسے لے اڑا اور حکومت سندھ ایک سال تک سوتی رہی اس بات کا انکشاف چیف سیکرٹری سندھ صدیق میمن کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا ہے ۔یہ ہیں ہمارے ٹھگ جو بنارسی ٹھگوں کو مات کر گئے ہیں پھر بھی ہم شکر نہیں کرتے کمائی کے ایسے ایسے طریقے ڈھونڈ نکالتے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔دوبئی سے ایک پاکستانی نے لکھا ہے کہ رمضان میں یہاں پاکستان سے بھکاری باقائدہ سپلائی ہوتے ہیں ٹھیکیدار فی بندہ چھ لاکھ روپے لیتا ہے
یہاں سے یہ بھکاری لاکھوں کما کر جاتے ہیں حتی کہ حرم شریف میں بھی یہ عبادت کی بجائے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ،ان دنوں میں اکثر فلائٹوں میں دیکھا جا سکتا ہے کس قسم کے لوگ دوبئی اور سعودیہ جاتے نظر آتے ہیں ۔اور تو اور ہمارے وزیر اعظم صاحب اوسلو میں قبائلیوں کے نام پر امداد مانگتے نظر آئے ۔حالانکہ قبائلی وہ مخلوق ہے جو بھیک مانگنے سے ڈاکہ مانگنا بہتر سمجھتی ہے ۔حال ہی میں شمالی وزیرستان کا قصہ کسی نے مجھے سنایا کہ ایک آدمی اپنی عورتوں کو وہاں سے دور بٹھا کے گیا (جہاں امداد بٹ رہی تھی ) کہ تم نے یہاں سے ہلنا نہیں ہے
نہ امداد لینی ہے میں پانی لیکر آ رہا ہوں کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو وہ لائن میں لگی ہوئی تھیں وہ بندہ انہیں مارتا پیٹتا کھینچ کر لے گیا یہ بھی شکر کا مقام ہے کہ سبھی لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے کچھ سر کسی کے آگے جھکتے نہیں سوائے خدا کے۔لیکن حرام اتنا رچ بس گیا ہے کہ اوپر سے نیچے تک کوئی شرم نہیں کوئی حیا نہیں !