تحریر : شاہد شکیل بہت بے شرم ہیں آپ، شرم نہیں آتی تمہیں، کہاں مر گئی تمہاری شرم، بے شرمی کی حد ہو گئی جیسے الفاظ اکثر ماضی میں ادا کئے جاتے تھے جبکہ آج کل تقریباً ہر اخبار ،ٹیلی ویژن اور فیس بک وغیرہ پر سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے لیکن کسے ،کب، کہاں اور کیوں ہوتی ہے یہ اس بے شرم کو کبھی پتا نہیں چلتا کیوں کہ وہ اپنی دھن اور مگن میں بے دریغ ہر وہ عمل کرتا ہے جو اس کے مفاد میں ہو اسے اس شرم وحیا سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ،مغربی ممالک میں اگر کوئی ٹین ایجر کسی لڑکی کے ساتھ چھیڑ خانی کرتا ہے تو وہ اسے یہ نہیں کہتی کوئی شرم ہوتی ہے کیوں کہ کسی میں شرم ہوتی ہی نہیں تو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے البتہ اگر کوئی کسی پر احسان کر دے اور دوسرا فرد احسان فراموشی کرے تو ظاہر بات ہے کہ احسان کرنے والے کو محسوس ہوتا ہے اور عام طور پر یہ جملہ کہا جاتا ہے کہ تمہیں شرم نہیں آئی وغیرہ۔
شرم اور بے شرمی جیسے الفاظ کئی موقعوں اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ادا کئے جاتے ہیں مثلاً پاکستان یا بھارت میں اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی سے چھیڑ خانی کرتا ہے تو اسے یہی سننا پڑتا ہے کہ شرم نہیں آتی ،گھر میں ماں بہن نہیں ہے وغیرہ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ کبھی کبھار تو بے شرم لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ،اصل میں شر م جیسے لفظ کے کئی معنی ہیں کچھ جو اوپر بیان کئے اور کچھ دیگر مواقعوں پر بھی استعمال کئے جاتے ہیں کیونکہ شرم نہ صرف عورت میں ہوتی ہے بلکہ مرد بھی اسے محسوس کرتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے انسان کو شرم آنا یا محسوس کرنا اچھی علامت ہے کیونکہ یہ ایک مضبوط اور خوشگوار احساس ہے اور معاشرے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
مغربی ممالک میں پیش آنے والے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین کی قیاس آرائیاں ،تنقید اور بیانات قدرے مختلف ہیں لیکن موضوع ایک ہی ہے کہ شرم کیوں ،کب اور کہاں آتی ہے ، مثلاً کینٹین میں لنچ کرتے ہوئے کسی خاتون کے بلاؤز کا درمیانی بٹن ٹوٹ جاتا ہے، ایک ٹیچر کلاس روم میں سب کے سامنے طالب علم پر شدید تنقید کرتا ہے ، ٹکٹ نہ ہونے پر بس یا ٹرام میں چیک ہو جاتے ہیں، کسی ناکردہ غلطی پر کوئی عین بیچ بازار میں بد تمیزی شروع کرتا ہے وغیرہ تو ان حالات میں انسان کو شرم محسوس ہوتی ہے اور یہ وہ شرم نہیں جسے جنسی معاملات سے جوڑا جائے کیونکہ شرم یا شرمندہ ہونے کا مطلب صرف لباس یا برہنہ پن تک محدود نہیں ہے دنیا کے تقریباً ہر انسان کا زندگی میں کبھی نہ کبھی شرم جیسے لفظ سے واسطہ پڑتا ہے۔
Angry Children
وہ پروفیشن ہو، روزگار ہو،غربت،بے روزگاری ہو یا حتیٰ کہ اگر والدین بھی کسی اجنبی کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ کریں تو شرم محسوس ہوتی ہے کہ یار یہ کیا اتنا بھی لحاظ نہیں کیا لوگوں کے سامنے گالی گلوچ شروع کر دی وغیرہ۔جرمن ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ شرم کا تعلق انسان کے جذبات اور احساسات سے منسلک ہے کسی بھی قسم کی شرم آنے پر انسان کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے جو ایک قدرتی عمل ہے اور اگر غلطی ہو جائے تو پشیمانی کی صورت میں بھی اپنا سرخ چہرہ چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ بے شرم لوگ اس عمل سے قطعی ناواقف ہوتے ہیں،سب جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں شرم و حیا کی دہلیز کو پار کر لیا گیا ہے اور ڈرامائی انداز میں کمی واقع ہو رہی ہے وہ چاہے لباس ہو یا کسی قسم کی گفتگو،اکثر ٹی وی ٹاک شوز میں لوگوں کا مذاق اڑایا جاتا اور تذلیل کی جاتی ہے ،شادی شدہ جوڑوں کی انتہائی رازدانہ باتیں تک سر عام نشر کی جاتی ہیں۔
اِن ٹیم اور مخصوص موضوعات پر کھلے عام بات کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں ہوتی ،انٹر نیٹ بلاگز میں واضح طور پر مباشرت کے راز افشا کئے جاتے ہیں اور ایسے انکشافات کئے جاتے ہیں کہ انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شرم نام کی کوئی چیز دنیا میں باقی نہیں ہے اور یہ لفظ اپنی قدر کھو چکا ہے،خواتین کو اکثر ڈائری لکھنے کی عادت ہوتی ہے اور یہ ڈائری کسی کے ہاتھ لگ جائے تو کسی پورن فلم سے کم نہیں ہوتی۔ہیوسٹن یونیورسٹی کے سماجی نفسیات کے ڈاکٹر براؤن کا کہنا ہے ماضی کی نسبت آج کل شرم بہت کم ہو گئی ہے اور بے شرمی میں انتہائی اضافہ ہوا ہے۔
سوشل معاملات پر ایک سو خواتین سے سوالات کئے گئے جن کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم ہر بات پر فوراً یقین کر لیتی ہیں مثلاً ہم موٹی ہو گئی ہیں ہم اچھی مائیں ثابت نہیں ہو رہیں ،بدن سیکسی نہیں رہا ،ایک خوف طاری رہتا ہے اور شرم محسوس کرتی ہیں کئی خواتین کا کہنا تھا ہم اپنے بدن کی نمائش کرنے میں قطعی شرم محسوس نہیں کرتیں ہم چاہتی ہیں کہ مرد ہمارے جسم کے انگ انگ کا گہرائی سے مطالعہ کریں ، کئی خواتین اس لئے شرم محسوس کرتی ہیں کہ فیملی مسائل زیادہ ہیں معاشرے میں اچھا مقام حاصل نہیں ہے وغیرہ۔
University of California
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ڈاکٹر ڈینیل فیسیلر کا کہنا ہے انسان کو شرم کی اشد ضرورت ہے شرم کوئی ناول،کہانی یا فلم نہیں انسانی میکانزم ہے اور مختلف گروپس یا سسٹم کے تحت اپنا کام کرتا ہے اور اسے صحت کے لئے بھی ضروری قرار دیا گیا ہےشرم آنے سے ہی انسان کے باطنی اور ظاہری احساسات اور جذبات کا علم ہوتا ہے مثبت یا منفی ہونے کی صورت میں جسم کے رگ وپے میں کرنٹ لگتا اور گھنٹی بجتی ہے اور اسے نیچرل عمل کہا جاتا ہے،شرم چونکہ ایک قدرتی عمل ہے اور عورت کے علاوہ مرد میں بھی برابر پایا جاتا ہے،علاوہ ازیں شرم و حیا معاشرے میں انسانوں کو متحد رکھتے ہیں ہر اچھے اور برے اثرات کے علاوہ مثلاً خطرات ، سائڈ ایفیکٹ اور خاص طور پر صحت پر گہرا اثر انداز ہوتے ہیں۔
کئی افراد ڈاکٹر ز کو اپنے مخصوص جسمانی اعضاء کی تکلیف نہیں بتاتے کیونکہ شرم محسوس کرتے ہیں اور یہ سراسر غلط ہے وہ شاید نہیں جانتے کہ ایسی صورت میں موت کو دعوت دے رہے ہیں،اکثر خواتین بریسٹ کینسر کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتیں اور موت کو گلے لگالیتی ہیں یا کم سن لڑکی بھول اور غلطی سے حاملہ ہو جائے تو والدین سے بات نہیں کرتیں کیونکہ شرم آتی ہے،ڈاکٹر کا کہنا ہے۔
شرم اور جرم دو مختلف الفاظ ہیں لیکن دونوں کو چھپانے سے انسان بیمار ہوجاتا ہے اور موت کا شکار ہو سکتا ہے۔آج کل دنیا الٹی چل رہی جرم سب کے سامنے کئے جاتے ہیں جنہیں کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے اور جو بات نہیں چھپانی چاہئے اسے بتانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔واہ ری دنیا واہ رے زمانے شرم بھی ہوتی ہے حیا بھی ہوتی ہے ،لیکن؟۔