کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) چوہدری شوگر ملز کیس کے الزام میں شریف خاندان پہلے ہی پھنسا ہوا ہے اور اب نیب کی بڑھتی تحقیقات شریف خاندان کے لیے نئی مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔
نیب کی چوہدری شوگر ملز کیس میں بڑھتی تحقیقات سے ایسا لگ رہا ہے کہ شریف خاندان کے مزید افراد اس کی زد میں آئیں گے جب کہ امکان ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف پر جلد یہ کیس بھی دائر ہوجائے۔
پاکستان بار کونسل کے رکن کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس کے حوالے سے چیف جسٹس اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ملاقات کے حوالے سے کچھ باتیں بیان کی ہیں۔
بار کونسلوں میں بحث ہورہی ہے کہ کیا چیف جسٹس کو اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ رہنا اور جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف کیس سننا چاہئے جبکہ کچھ باتیں جسٹس فائز عیسیٰ کی طرف سے اور کچھ باتیں چیف جسٹس کی طرف سے آئی ہیں۔ اس حوالے سے عدالتیں، وکلاء اور تاریخ سب جوابدہ ہوں گی۔
معروف صنعتکار عارف حبیب نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا تھا، اس میں پچھلے سال 6 ارب ڈالر کی کمی آئی تھی، نئے مالی سال کا پہلا مہینے کا آغاز کافی اچھا رہا ہے اور اس میں پچھلے سال جولائی کے مقابلہ میں واضح کمی ہوئی ہے جب کہ اگست میں بھی درآمدات مزید کم ہونے کی توقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ حل ہوتا نظر آتا ہے لیکن یہ سلوڈاؤن کی قیمت پر ہے، حکومت نے برآمدات بڑھانے کیلئے کافی اقدامات کیے ہیں، زیرو ریٹنگ اور ریفنڈز کا معاملہ حل کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے، اگر حکومت یہ وعدہ پوری کرتی ہے تو اچھے نتائج دیکھنے کو ملیں گے، سرمایہ کاروں کو حکومت کی پالیسیوں کے تسلسل کا یقین آئے گا تب ہی سرمایہ کاری کریں گے۔
پاکستان بار کونسل کے رکن کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ایپکس باڈی کے طور پر پاکستان بار کونسل کا یہ فرض تھا کہ یہ سوال عدالت کے سامنے رکھے کہ یہ بھی ایک نکتہ نظر ہے اور جواب دے کہ کیا جسٹس فائز عیسیٰ نے جو کچھ لکھا یا جو سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے آئی جس میں چیف جسٹس کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا۔
اس کے بعد بھی یہ مناسب ہوگا کہ اس معاملہ میں چیف جسٹس صاحب بیٹھیں اب اس کا فیصلہ کورٹ نے کرنا ہے۔
کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل کا لازمی حصہ ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل میں 26, 27 ریفرنسز زیرالتواء ہیں، اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس کو اپنے نمبر پر لے لیا جائے اور دسمبر کے بعد اس کی باری آئے تو اس میں کوئی بری بات نہیں ہوگی۔
کامران مرتضیٰ نے مزید کہا کہ ایک سنجیدہ اعتراض یہ بھی ہے کہ تین چیف جسٹس صاحبان کی طرف سے ہائیکورٹ کے جج صاحبان کیلئے نام آئے تھے جس میں سے دو جج صاحبان سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر ہیں جبکہ ایک چیف جسٹس ممبر نہیں ہیں، اس وقت بار کے حلقوں میں یہ ادراک بھی پایا جاتا ہے کہ جو دو چیف جسٹس صاحبان سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر ہیں ان کی نامزدگی قبول ہوگئی ہیں جبکہ جو چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر نہیں ہیں ان کی نامزدگیاں مسترد کردی گئی ہیں۔
پاکستان بار کونسل نے اس اعتراض کو بھی عدالت عظمیٰ کے سامنے رکھا ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ نیب کا خوف ہر جگہ چھایا ہوا ہے، بیوروکریسی سے لے کر سرمایہ کاروں اور سیاست دانوں تک ہر کوئی اس کے خوف کا شکار ہے، ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کی حکومت نے اہم فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی کابینہ نے نیب قوانین میں ترامیم کی منظوری دیدی ہے جس کے بعد نیب کا کردار صرف میگا کرپشن کیسز تک ہوگا، ملزمان کی ضمانت کا اختیار ٹرائل کورٹ کو ملے گا جبکہ نیب ایسے کسی شخص کیخلاف کارروائی نہیں کرے گا جس کا پبلک آفس ہولڈر سے تعلق نہ ہو۔