کراچی (جیوڈیسک) آئی جی سندھ، ایڈیشنل آئی جی کراچی سمیت 12 پولیس افسران نے سندھ ہائی کورٹ میں حلف نامے جمع کردایے۔ عدالت نے سماعت یکم جون تک ملتوی کرتے ہوئے چیف سیکریٹری سندھ کووزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کا حکم دے دیا۔ سندھ ہائی کورٹ میں عدالت عالیہ اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے گھیراؤ کے معاملے کی سماعت ہوئی
جس کے دوران آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی سمیت 12 پولیس افسران نے ہائی کورٹ میں حلف نامے جمع کردایے۔ پولیس افسران کے وکیل کے مطابق آئی جی سندھ نے حلف نامے میں غیرمشروط معافی کے ساتھ اضافی معلومات بھی عدالت کو فراہم کیں۔ غلام حیدر جمالی نے حلف نامے میں استدعا کی ہے کہ عدالت ان کی غیرمشروط معافی قبول کرے، وہ یقین دلاتے ہیں کہ تابعدار سرکاری ملازم ہیں، ججز اورعدلیہ کا احترام کرتے ہیں اور معزز اداروں کی عظمت اور احترام کے لیے کام کرتے رہیں گے۔
کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ 23مئی کی شام جو کچھ ہوا وہ حیران کن تھا، وزیراعلیٰ سندھ اس لیے ایکشن نہیں لے رہے کہ معاملہ عدالت میں چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب میجر کلیم سے پوچھا گیا کہ ذوالفقار مرزا کو بدین یا کہیں اور گرفتار کیوں نہیں کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ذوالفقار مرزا کے ساتھ جرائم پیشہ افراد تھے، ان میں سے دو کا تعلق فاٹا سے ہے جن کے پاس خطرناک ہتھیار ہیں۔
اس پرجسٹس سجاد علی شاہ نےایڈووکیٹ جنرل سے استفسارکیا کہ اگر ذوالفقار مرزا کے ساتھ جرائم پیشہ افراد تھے تو رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ کو آگاہ کیوں نہیں کیا گیا۔ اگر وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ ایسا ہوتا تو کیا ایکشن لیا جاتا؟؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ اس دن جو بھی ہوا تمام افسران اپنے آپ کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں، تمام افسران کا میڈیا ٹرائل جاری ہے جس کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔
ان کا مزید کہناتھا کہ ایس ایس پی طارق دھاریجو کی 20مئی سے 2 جون تک بیرون ملک جانے کی رخصت منظور کرلی گئی ہے۔ ایس پی رئیس غنی بھی 18 مئی سے 20روز کےلئے رخصت پر ہیں، دو افسران کو احکامات نہ ماننے پر ہٹانے کی بات درست نہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت یکم جون تک ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا کہ چیف سیکریٹری سندھ، وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کریں اور بتائیں کہ عدالتوں کے گھیراؤ پر وزیراعلیٰ سندھ نے کیا ایکشن لیا ہے۔