تحریر : شیخ خالد ذاہد ہم اسلامی جہموریہ پاکستان میں رہتے ہیں جہاں ہمارے لیئے کم و پیش ہر دن یومِ سیاہ کہ طور پر نمودار ہوتا ہے یا کبھی کبھار دن کہ بیچ سے شروع ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ہم اسی دن کی تیاری میں اپنے دن گزارے جا رہے ہیں۔۔۔۔۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم جن کیلئے یومِ سوگ منا رہے ہوتے ہیں انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ پاکستان بھی کوئی ملک ہے۔۔۔۔۔ہمارے معمولاتِ زندگی میں اہم ترین معاملات جنازے اٹھانا، سوگ منانا ، شمعیں جلانا ، سیلفیاں بنانا اور آنسو بہانا رہ گئے ہیں۔۔۔۔۔۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی حادثہ یا سانحہ رونما ہوتا ہے تو ہم پاکستانی اس حادثے، اس سانحے کہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ متاثرین شمار کرتے ہیں اور خوفزدہ ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ آج دنیا میں پاکستانی بطور دہشت گرد، اشتعال انگیز، غیرت مند اور اس طرح کہ دیگر کئی القابات سے یاد کئے جا رہے ہیں۔۔۔۔۔دنیا ہمیں پاکستانی مسلمان سمجھی ہے اور ہم ایک دوسرے کو پنجابی، مہاجر، پٹھان، بلوچی اور سندھی سے پہچانتے ہیں یا پھر دیوبندی، بریلوی، شیعہ، شافعی نا معلوم کن کن حوالوں سے تفریق کر کہ جانتے ہیں۔۔۔۔۔ کسی پر انگلی اٹھانا ہمارے معاشرے کا سب سے محبوب مشغلہ ہے اور جو کہ بہت ہی آسان ہے ۔۔۔۔۔ اصلاح کرنا یا اصلاح کی بات کرنا، کوتاہیوں کا ازالہ کرنا نہایت ہی مشکل بلکہ ناممکن کام دیکھائی دیتاہے۔۔۔۔۔۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس رنگ و روشنی کی دنیا میں اس کا حصہ بننا یا مشہور ہونے کا شوق کسی بھی انسان کہ دل میں کبھی بھی پیدا ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔شوق بھی عقل سے ماوراء اور جذبات سے بھرپور ہوتا ہے بلکل محبت کی طرح۔۔۔۔۔ کبھی تو انسان دل میں انگڑائیاں لیتے شوق کو وقت کی بے رحمی کی نظر کردیتا ہے اور دو وقت کی روٹی کمانے کی تگ و دو میں مگن ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔کچھ لوگ اپنے شوق کی تکمیل کر پاتے ہیں اور بہت کم لوگ اس بات خاطر میں رکھتے ہیں کہ وہ بلندی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے صحیح یا غلط راستے سے گزر رہے ہیں یا نہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔وہ استعمال بھی ہوجاتے ہیں کبھی صحیح لوگوں کہ ہاتھ تو اکثر معاشرے کہ برے لوگوں کہ ہاتھوں میں کھلونا بن جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ شہرت کا بھوکا شخص بھول جاتا ہے کہ اسے کبھی مشہور ہونے کا شوق تھا۔۔۔۔۔
بیسویں صدی کی آمد سے معاشروں میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں ۔۔۔۔۔۔۔یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ہم ٹوٹے پھوٹے اسلامی معاشرتی نظام کا حصہ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ معاشرتی ترجیحات بہت تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوئیں۔۔۔۔۔۔ معاشرے میں وقت کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی اس وقت کہ طفیل گھر کہ امور و معاملات میں بھرپور شرکت کی جاتی تھی رشہ داروں اور محلہ والوں کی خبر گیری کی جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ مسلئے مسائل بیٹھ کر حل کیئے جاتے تھے۔۔۔۔۔۔ غرض یہ کہ ایک دوسرے کا ہر طرح سے خیال رکھنے کی روایات تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ پھر وقت قلیل ہونا شروع ہوا۔۔۔۔۔۔وقت کی قلت کہ سبب نئی نسل کی تربیت میڈیا نے لے لی۔۔۔۔۔میڈیا پر کسی کی حکمرانی ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔۔۔۔۔ اسلامی اقدار معدوم ہونا شروع ہوئیں۔۔۔۔۔۔ میڈیا سے متعلق سارے وسائل ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنی نئی نسل کہ حوالے کر دئیے۔۔۔۔۔جن میں کمپیوٹر سے شروع کرتے ہوئے بات موبائل ٹیبلیٹ اور دیگر پر پہنچ گئی۔۔۔۔۔ اس طرح کی چیزوں نے انسانوں میں طبعی دوریاں پیدا کردیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اب طبعی ملاقاتوں کا سلسلہ بہت قلیل ہوچکا تو سماجی اقدار کی منتقلی کا کام بھی کم و پیش متروک ہوتا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ بچے بہت جلدی بڑے ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔۔۔۔۔۔ ہماری مصروفیتوں کہ باعث احساس سے عاری پرورش ہو رہی ہے۔۔۔۔۔ ان تمام تر خرابیوں کا الزام کسی ایک رشتے پر نہیں ڈالا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔ پورے کا پورا معاشرہ اور معاشرے کی ہر اکائی اس سارے بیگاڑ میں برابر کی شراکت دار ہے ۔۔۔۔۔
Qandeel Baloch
فوزیہ عظیم المعروف قندیل بلوچ بھی پاکستان کہ ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتی تھی جہاں رات تاریکی سے پہلے ہی ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔گھریلو کام کاج بھی جلدی سمٹ جاتے ہیں اور بظاہر کرنے کیلئے کچھ نہیں بچتا۔۔۔۔۔۔۔ پرانے وقتوں میں یہ لوگ سرشام ہی بستروں میں چلے جاتے تھے اور منہ اندھیرے اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے تھے۔۔۔۔۔۔ لیکن جب سے کیبل (ہم سب اس سے واقف ہیں) کی نشریات عام ہوئی ہے اور اس کا ایک نا ٹوٹنے والا تسلسل جاری و ساری ہے تو یہ سادہ لوح لوگ بھی اس کہ چنگل میں پھنستے چلے گئے ۔۔۔۔۔دوسری طرف انٹر نیٹ کی سہولت بھی ان لوگوں تک پہنچ گئی ہے وہ بھی کبھی معطل نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔ اب نئی نسل کیلئے باقی سارا وقت ان چیزوں کیلئے بچتا ہے۔۔۔۔۔ ہمارے معاشرے نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ تعلیم ہو نہ ہو مگر انٹرنیٹ کیلئے استعمال ہونے والی تمام مصنوعات کا بہت احسن طریقے سے چلائی جا سکتی ہیں۔۔۔۔۔
مذکورہ بالا سطور کو ذہن میں رکھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا صرف قندیل بلوچ کا بھائی مجرم قرار دے سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔معلوم نہیں کتنی فوزیہ اب تک غیرت کہ نام پر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو چکی ہیں اور انکو خاموشی سے انکے مدفن میں دفن کردیا گیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔پورا معاشرہ، پورا پاکستانی معاشرہ اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔۔۔۔۔
ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں۔۔۔۔۔ بچوں کہ ساتھ زیادتی کہ کتنے ہی کیسس میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔۔۔۔۔ کیا ہم اسلام سے پہلے والے دور میں واپس جارہے ہیں۔۔۔۔۔ دنیا نے ہمیں پیچھے دھکیلنے کیلئے ہمارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ دی ہیں کہ ہم خود بخود اندھی گہرائی میں گرتے چلے جائیں۔۔۔۔۔ دنیا کی چکا چوند کسی کی بھی آنکھیں خیرہ کر سکتی ہے۔۔۔۔۔ جہالت کا دور دورہ ہے ۔۔۔۔۔ جنسی بے راہ روی اپنے عروج پر ہے ۔۔۔۔۔۔ کیا ہم لوگ جانتے بوجھتےاپنی بڑھتی ہوئی آنے والی نسلوں کو اپنی آنکھوں کہ سامنے تباہ و برباد ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں گے؟؟؟۔۔۔ فراز نے کہا تھا ” قصہ ظلمتِ شب سے کہیں بہتر ہے ۔۔۔۔ اپنے حصے کا چراغ جلاتے جائیں”۔۔۔۔۔۔سینہ کوبی، نوحہ خوانی اور آہ و فغاں سے کچھ نہیں ہونے والا ۔۔۔۔۔عملی اقدامات کرنے ہونگے۔۔۔۔۔ اپنی نسلوں کو معاشرتی ضابطہ اخلاق مرتب کر کہ دینے ہونگے انہیں اقدار منتقل کرنے ہونگے۔۔۔۔۔ان میں رشتوں کی پاسداری کا فن پیدا کرنا ہوگا۔۔۔۔۔وہ نہ بھی چاہیں تو ان سے وقت مانگنا پڑیگا۔۔۔۔۔
Qandeel Baloch
” ابھی عشق کہ امتحاں اور بھی ہیں “۔۔۔۔۔۔۔پھر کسی قندیل بلوچ کے موت کا ذمہ اٹھانے کیلئے تیار ہوجائیں۔۔۔۔۔ ہمیں اپنی بصیرت کی روشنی تیز کرنی ہوگی ۔۔۔۔۔ ہمیں 1400 سال پہلے فراہم کیا گیا ضابطہ حیات و ضابطہ اخلاق دوہرانا ہوگا۔۔۔۔۔ ہمارے لئے حدیں مقرر ہیں۔۔۔۔۔۔ کیا ہم ان حدوں کے تعین کرنے میں کوئی غفلت تو نہیں برت رہے ۔۔۔۔۔ لاتعداد سوالات ہیں اور ان لاتعداد سوالات کہ انگنت جوابات ہیں۔۔۔۔۔ الجھنا چاہتے ہو تو الجھتے چلے جاؤ گے۔۔۔۔۔۔ ورنہ ” سیدھا راستہ تو بتا دیا گیا ہے ” فیصلہ کرناہے سمت کا تعین کرنا ہے ۔۔۔۔۔ معلوم نہیں کتنا کچھ لکھا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ کتنا کچھ بولا جارہا ہے ۔۔۔۔۔ سب لکھنے والے سب بولنے والے ہمارے لئے قابلِ احترام ہیں۔۔۔۔۔ قابلِ تقلید نہیں۔۔۔۔۔ مکھی پر مکھی بیٹھانے والے کی طرح یا لکیر کہ فقیر کی طرح زندگی تو گزر جاتی ہے لیکن آخیر (مرتے وقت) میں ایک سوال پیدا کر دیتی ہے کہ ” کیا یہاں تک کا سفر اسی راستے پر چلا جس پر چلنا تھا ” اس وقت بہت سارے ابھام ہوتے ہیں بہت سارے ” اگر اور لیکن ” ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔
معاشرے میں تبدیلی لانے کیلئے ہماری باعزت اور قابلِ احترام خواتین کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔۔۔۔۔ اسکا مطلب قطعی یہ نہیں کہ مرد اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہیں، مردوں کی ذمہ داری دہری ہے ایک گھر کہ اندر اور دوسری گھر سے باہر۔۔۔۔۔۔
دشمن اپنی بھرپور تیاریوں سے ہمیں ہر طرح سے نقصان پہنچانے پر کمر بستہ ہے ۔۔۔۔۔ جس کا اندازہ گزشتہ کچھ ماہ میں بہت واضح ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہمارے لئے ہر طرح کی چالیں چل رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ قندیل بلوچ بھی انہی چالوں کا حصہ تھی۔۔۔۔۔۔اسکا قتل بھی انہی چالوں میں سے ایک ہے۔۔۔۔۔۔ ہمیں اپنی من کی آنکھیں کھولنی ہونگی اپنی بصیرت سے کام لینا ہوگا اور بہت حقیقت پسندی سے، بہت بردباری سے بدلتے ہوئے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے آگے کا لائحے عمل اپنی نئی نسل کو ساتھ بٹھا کر طے کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔انشاءاللہ قدرت ہماری مدد ضرور کرے گی۔۔۔۔