پاکستان کی معیشت اس وقت ایک نازک موڑ سے گزر رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں پر امن ماحول کا نہ ہونا ہے۔ اس وقت پاکستان کا کوئی ایسا شہر نہیں جو دہشت گردی کی لپیٹ میں نہ ہو۔اگر معیشت کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو بہت اہمیت حاصل ہے مگر اس وقت کراچی کے حالات سب کے سامنے ہیں۔
روز درجنوں لاشیں سڑکوں سے اٹھائی جا رہی ہے اس کے علاقہ وہاں کے تاجروں کابھتہ مافیا نے جینا حرام کر رکھا ہے روزانہ بھتے کی پرچیاں وصول ہو رہی ہیں اور بھتہ نہ دینے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہے۔ ان تمام مسائل کو حل کرنے میں حکومت وقت بالکل دلچسپی نہیں لے رہی معلوم نہیں ہمارے لیڈران کو کیوں فکر نہیں کہ یہاں پر امن و امان قائم کریں۔ کراچی پاکستان کا بہت بڑا صنعتی مرکز ہے اور اسے ہر صورت جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔
ایک دن کراچی میں ہڑتال اور مکمل شٹر ڈائوں ہونے سے ہماری معیشت کو دو ارب روپے کا نقصان ہو تا ہے۔ اب معیشت کے حوالے سے ایک نئے پرو جیکٹ پر بات کی جائے جس میں وزیر اعظم نواز شریف صاحب اسلام آباد کے اندرڈریم پروجیکٹ کے نام سے ایک نیا اسلام آباد بنانے جا رہے ہیں۔اس پروجیکٹ پر 12 ملین ڈالڑ کی لاگت آئے گی جس میں روات کے قریب ایک نیا ایرپورٹ بھی بنایا جائے گا اور ائرپورٹ کونئے اسلام آباد سے ایکسپریس وے کے ذریعے ملایا جائے گا۔
اس ایکسپریس وے کو بئی میں واقع شیخ زید ایونیو کی نقل کرتے ہوئے بنایا جائے گا جس کے دونوں اطراف میں کمرشل پلازوں کے لیے تاجروں کو پلاٹ الاٹ کیے جائیں گے۔ اب ایک سوال اٹھتا ہے کہ اتنے بڑے پروجیکٹ کو بنانے میں ایک عام پاکستان کو کیا فائدہ پہنچے گا؟شاہد اس کا جواب ہمارے وزیر اعظم بھی نہ دے سکیں کیونکہ واقعہ میں اس اتنے بڑے پروجیکٹ سے عام شہری کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ شائد مہنگائی میں مزید اضافہ ہو کیونکہ 12 ملین ڈالر جو اس پروجیکٹ پر خرچ ہوں گے وہ بھی کشکول لے کر مانگے جائیں گے۔
اسکے بعد سارا بوجھ ایک عام شہری پر پڑے گا کیونکہ آئی ایم ایف بغیر شرائط کے اتنی بڑی رقم ادھار میں نہیں دے گا جب تک وہ اپنی شرائط منوا نہ لے۔ میاں صاحب کو چاہیے کہ عقل سے کام لیں اور پہلے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کا سوچیں۔ ان کا شائد یہ خیال ہے کہ اس پروجیکٹ سے پاکستان کی معیشت بہت بہتر ہو جائے گی مگر انہیں اس بات کی پراہ نہیں کہ بھتہ خور اب کراچی سے اسلام آباد تک آپہنچے ہیں اس لیے پہلے اس مسئلے کو حل کیا جائے پھر اس قسم کے پر تعیش پروجیکٹ شروع کیے جائیں۔
Muslim League N
اسی طرح مسلم لیگ ن کی طرف سے چند عرصہ پہلے پورے پنجاب میں طالبعلموں کو لیپ ٹاپ گفٹ کے طور پر دیئے گئے۔پہلے ایک لاکھ دس ہزار طالبعلموں کو 4ملین روپے کے لیپ ٹاپ دیئے گئے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ان طالبعلوں کو لیپ ٹاپس کی ضرورت تھی۔شائد ان کو اس لیپ ٹاپ کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہی لیپ ٹاپ پنجاب سے طالبعلوں کو ہاتھوں فروخت ہوتے ہوئے کراچی کی مارکیٹوں تک پہنچ گئے اور اگر واقعی طالبعلموں کو ان لیپ ٹاپس کی ضرورت ہوتی تو وہ مارکیٹ میں فروخت نہ کرتے۔
اس کے علاوہ بھی مسلم لیگ نے بے شمار ایسے پروجیکٹ شروع کیئے جن سے پاکستان کی معیشت کو ایک زبردست دھکا لگا۔ جیسے لاہور میں بننے والے صرف 27 کلومیٹر ٹریک پر چلنے والی میٹروبس سسٹم پر 30 ملین روپیہ خرچ کر دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک عمدہ پروجیکٹ ثابت ہوا لیکن ابھی اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جب بارش ہوتی ہے تو لاہور شہر پانی سے بھر جاتا ہے جس کے لیے نکاسی کے نظام کو بہتر بنایا جانا اول ترجیحی ہونی چاہیے تھی۔
حکومت کو چاہیے کہ پہلے بنیادی مسائل حل کیے جائیں اس کے بعد لوگوں کو جدید سہولیات دی جائیں کیونکہ مسائل کے ہوتے ہوئے جدید سہولیات کو استعمال کرنا کافی مشکل ثابت ہو گا۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے دور حکومت میں کوئی بڑا بروجیکٹ شروع نہیں کیا جو ملکی معیشت پر اثرات مرتب کرے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے جیالوں کے علاوہ بے شمار غریب عوام نے فائدہ اٹھایا۔
اسی طرح پی پی حکومت نے غریب خاندانوں کو سلائی مشینوں کے علاوہ اور بھی کئی کسی کی مشینری مفت میں فراہم کی جس سے خالصتا غریب لوگوں کو فائدہ ہوا۔ قارئین۔ آخر میں حکومت وقت کے لیے ایک مشورہ دیا جا رہا ہے کہ برائے مہربانی لوگوں کو لگثری سہولیات دینے سے پہلے ان کے بنیادی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے اور پاکستان کو درپیش مسائل سے نکالنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
حکومت کو اس وقت لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، بیروزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل کو حل کرنے پر پہلے غور کیا جائے اور ان مسائل کے خاتمے کے بعد نئے اور جدید پروجیکٹ شروع کیے جائیں جبکہ ملک کو اس وقت معاشی بحران کا بھی سامنا ہے اس لیے حکومت وقت کو چاہیے کہ چادر دیکھ کر اپنے پائوں پھیلائیں۔