تحریر : صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی تاریخ کے طالب علم خوب جانتے ہیں کہ تہذیب وتمد ن کے اعتبار سے دنیا کی کوئی بھی قوم مسلمانوں کی ہم پلہ نہ تھی، پوری دنیا میں ان کے کارناموں ، تہذیب و تمدن ، علم و حکمت اور فہم و فراست کا شہرہ تھا آپ صرف بغداد ہی کو لیجئے ،دنیائے اسلام میں اس کو مرکزی حیثیت حاصل تھی کیونکہ علوم فنون، حکمت و دانش اور فہم و فراست کے لحاظ سے دنیا کے لئے بغدادجاذبیت اختیار کر چکا تھا۔جہاںایک طرف مسلمان اگر رفعتِ عظمت کو چھو رہے تھے تو دوسری طرف بیرونی نظریات و خیالات کی یلغار اس کے یقین واعتماد کی دیواروں کی بنیادیں بھی اندر ہی اندر سے کھوکھلی کر رہی تھی۔علم و حکمت کی پیاسی انسانیت کسی ایسے مسیحا کے انتظار میں تھی جو اپنے قدوقامت اور علم و حکمت کی بنیاد پر صدیوں پر بھاری ہو ،غالباً یہ ٥٥٣ ہجری کا واقعہ ہے کہ ایک شخص کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا مگر وہ بزرگ یکا یک اُٹھ کر باہر تشریف لے گئے جو شخص وہاں حاضر ہوا وہ بھی پانی کا لوٹا بھر کر بزرگ کے پیچھے پیچھے چلا آیا لیکن انہوں نے کچھ توجہ نہ فرمائی۔ چلتے چلتے یہ بزرگ فصیلِ شہر کے دروازے پر پہنچے۔ دروازہ خود بخود کُھل گیا اور وہ شہر سے باہر نکل گئے۔ مذکورہ شخص بھی اُن کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ چند قدم چلے تھے کہ ایک عظیم الشان شہر نظر آیا، آپ اس میں داخل ہو کر ایک مکان کے اندر چلے گئے وہاں چھ شخص بیٹھے تھے وہ ازراہِ تعظیم کھڑے ہو گئے اور آپ کو سلام کیا۔ مکان کے ایک کونے سے کسی کے کراہنے کی آواز آ رہی تھی ،تھوڑی دیر میں وہ آواز بند ہو گئی اتنے میں ایک شخص آیا اور اس کونے سے ایک میت کندھے پر اٹھا کر چلا گیا پھر ایک نصرانی وضع کا شخص آپکے سامنے حاضر ہوا۔ اُس کا سر برہنہ تھا اور بڑی بڑی مونچھیں تھیںبزرگ نے اس شخص کے سر اور لبوں کے بال تراشے پھر اسے کلمہ شہادت پڑھایا اور اِن چھ اشخاص سے مخاطب ہو کر فرمایا۔
میں بہ حکم الٰہی اس شخص کو متوفی کا قائم مقام کرتا ہوں ان اشخاص نے بیک زبان کہا ”ہمارے سر آنکھوں پر”پھر آپ اِس شہر سے باہر تشریف لے آئے چند ہی قدم چلے تھے کہ بغداد کی شہر پناہ آ گئی۔ پہلے کی طرح اس کا دروازہ خود بخود کھل گیا اور آپ اپنے دولت کدہ پر تشریف لے آئے صبح ہوئی اور وہ شخص اُن بزرگ سے درس لینے بیٹھا اور بزرگ کو قسم دے کر رات کے واقعہ کی تفصیل پوچھی ، آپ نے فرمایا پہلے عہد کرو کہ جب تک میں زندہ ہوں اس واقعہ کا اظہار کسی سے نہ کرو گے اُس شخص نے ایسا کرنے کا وعدہ کیا جس پر بزرگ نے فرمایا رات کو جس شہر میں ہم گئے تھے اُس کا نام ”نہاوند” تھا جو بغداد سے دور دراز فاصلہ پر واقع ہے۔ مکان میں جو چھ آدمی تھے وہ ابدالِ وقت ہیں۔ جس شخص کے کراہنے کی آواز تم نے سُنی وہ ساتواں ابدال تھا۔ اس وقت اس کا عالمِ نزع تھا جب وہ واصل بحق ہو گیا تو اُس کی میت حضرت خضر علیہ السلام اُٹھا کر لے گئے۔ جس آدمی کو میں نے کلمہ شہادت پڑھایا وہ قسطنطنیہ کا رہنے والا ایک عیسائی تھا۔ میں نے اللہ کے حکم سے مرحوم ابدال کی جگہ اسے ساتواں ابدال مقرر کیاوہ شخص جو بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا شیخ ابو الحسن بغدادی تھے اور جس بزرگ کی خدمت میں انہوں نے حاضر ی دی وہ شیخ عبدالقادر جیلانی تھے۔اولیاء اللہ نے ان کی آمد کی اطلاع ان کی ولادت سے پہلے دے دی تھی، قطبِ دوراں شیخ ابو بکرہوار نے ایک دن اپنی مجلس میں شیخ غراز سے کہا ”عراق میں ایک ایسا مردِ خُدا پیدا ہو گا جو اللہ اور اُن کے بندوں کے نزدیک بے حد رتبے کا حامل ہو گا اس کی سکونت بغداد میں ہو گی وہ کہے گا کہ” میرا قدم ہر ولی کی گردن پر ہے” اس کے زمانے کے اولیاء اس کی بات مانیں گے اُس کے دور میں اُس جیسا کوئی نہیں ہوگا۔
حضرت غوث الااعظم نے ساداتِ کرام کے ایک مقدس گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں ہر وقت قال اللہ و قال الرسول صلی ٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدائیں گونجتی تھیں ان کے نانا سید عبداللہ صومعی ٰاور والد محترم سید ابو صالح موسیٰ دوست جنگی اولیائے کامل تھے۔ اسی طرح آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ ام الخیر فاطمہ اور پھُوپھی سیدہ عائشہ عارفات ربانی میں سے تھیںان تمام ہستیوں کا شمار عالی مر تبت عابد و زاہد اور منکسر المزاج بزرگان ِ دین میں ہوتا تھا چنانچہ شیخ الاسلام والمسلمین ،حجةاللہ علی العالمین ،قطب الاقطاب ،رائس الاغیاث سیدنا محی الدین ابو محمد عبدالقادرالحسنی الحسینی الجیلانی 470ھ میں طبرستان کے قصبے جیلان میں پیدا ہوئے حضور غوث ِ اعظم کی ولادت کے حوالے سے متعدد روایات بیان کی گئی ہیں جن میں معتبر روایت یہی ہے کہ حضور غوث الاعظم یکم رمضان المبارک جمعة المبارک 470ہجری بمطابق 1075ء گیلان میں پیدا ہوئے ایک روایت یکم رمضان المبارک 471ہجری بوقت ِشب کِتم عدم سے منصہ شہود پر جلوہ فگن ہوئے ، پہلی روایت کا ماخذ شیخ ابو نصر صالح کا بیان ہے اور انہی کے بیان کی سند لے کر علامہ ابنِ جوزی نے اپنی تصنیف ”المنظم ” میں اور شریف مرتضیٰ زبیدی نے ”تاج العروس ” ”شرح قاموس ” میں آپ کا سالِ ولادت 470ہجری تحریر کیا ہے اور دوسری روایت کے مستند راوی شیخ ابو الفضل احمد بن صالح شافعی جیلی ہیں دو نوں تاریخوں کے حق میں بکثرت روایات ہیں اگرچہ ہماری تحقیق کے مطابق کثرت ِ آراء دوسری روایت یعنی471ہجری کے حق میں ہے جس رات آپ کی ولادت ہوئی اُس رات اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے گیلان میں سب لڑکے ہی پیدا فر مائے جنکی تعداد گیارہ سو تھی اور وہ سب کے سب اولیاء اللہ اور مردانِ خدا تھے۔
گیلان کو عرب کے لوگ مُعرب بنا کر جیلان بھی کہتے ہیں یہ طبرستان کے پاس ایک علاقہ ہے جو ملک عجم میں واقع ہے اسی علاقہ میں نیف نام کے ایک قصبہ میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی یہ علاقہ بغداد مقدس سے سات میل کی دوری پر ہے علامہ امام ابو الحسن الشطنوفی نے اپنی تصنیف ”بہجة ُ الاسرار ” میں اس علاقہ کا ذکر کیا ہے بغدادمقدس اور مدائن کے قریب بھی جیل یا گیل نام کے دو قصبے پائے جاتے ہیں لیکن ان دو نوں قصبوں کو حضرت غوث الاعظم کا مولد باور کرنا درست نہیں کیونکہ یہ ملک عراق سے متعلق ہیں اور حضرت غوث الا عظم کا عجمی ہونا متحقق ہے اور امام یافعی المتوفی 768 ھ اپنی تصنیف ”مرآ ة الجنان و عبرة الیقظان ” میں لکھتے ہیں کہ ”حضور غوث الاعظم سے جب کسی نے آپ کے سال ِ ولادت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے جواب دیا مجھ کو صحیح طور پر تو یاد نہیں البتہ اتنا ضرور معلوم ہے کہ جس سال میں بغداد آیا تھا اسی سال شیخ ابو محمد رزق اللہ ابن عبد الوہاب تمیمی کا وصال مبارک ہوا اور یہ 488ھ تھا اس وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی ”اس حساب سے آپ کا سنِ ولادت 470ھ ہوا اس کے بعد امام یافعی نے شیخ ابو الفضل احمد بن صالح جیلی کا قول نقل کیا ہے کہ ”حضرت کی ولادت 471ھ میں ہوئی اور آپ 488ھ میں بغداد تشریف لائے تھے امام یافعی نے حضور غوث الاعظم کے اس قول سے کہ اس وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی یہ سمجھا کہ آپ اٹھارہ سال پورے فر ما چکے تھے اور شیخ ابو الفضل نے یہ سمجھا کہ ابھی آپ اٹھارہ سال ہی میں تھے 470ھ اور 471ھ میں وجہ اختلاف بھی یہی ہے جو درج بالا سطور میں بیان کی گئی ہے اور اسی اختلاف کی بنیاد پر بعد کے مورخین میں سے کسی نے امام یافعی کے قول کے مطابق اور کسی نے شیخ ابو الفضل احمد کے خیال کے مطابق حضور غوث الاعظم کا سنِ ولادت متعین کیا ہے اس طرح کسی نے اپنی ریسرچ کے مطابق ولادت کی تاریخ لفظ عشق سے نکالی ہے اسے بھی ہم درست تسلیم کر لیتے ہیں اور جس کسی نے لفظ عاشق کو مادہ تاریخ قرار دیا ہے اسے بھی صحیح مانا جاتا ہے اور یہ بات بھی کس قدر دلچسپ اورحیران کُن ہے کہ ولادت کے ساتھ احکامِ شریعت کا اس قدر احترام تھا کہ حضور شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رمضان المبارک میں سورج غروب ہونے تک قطعی دودھ نہیں پیتے تھے، ایک مرتبہ مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے 29شعبان کو چاند کی رُوےَت نہ ہوسکی لوگ تردد میں تھے ، لیکن اس مادر زاد ولی نے صبح دودھ نہیں پیا ، با لآ خر تحقیق سے معلوم ہوا کہ آج یکم رمضان المبارک ہے ۔۔۔۔۔۔آپ مادر زاد ولی تھے آپ کی امی جان اُم الخیر فاطمہ کبار خواتین عارفات و صالحات سے تھیں انہیں کشف کی نعمت حاصل تھی عجب بات یہ ہے کہ جب حضور سیدنا غوث الاعظم متولد ہوئے تو آپ کی امی جان کی عمر ساٹھ سال تھیں جسے سنِ ایاس سے تعبیر کرتے ہیں اس عمر میں پیدائش کا نظام فطرتاََ مو قوف ہو جاتا ہے بس اللہ تبارک و تعا لیٰ ہی کی قدرت ہے کہ اُس نے اس عمر میں اُمت کی راہنمائی کے لیے اپنے ایک خاص بندہ کو جیلان یا گیلان کی دھرتی پر پیدا فر مایا۔
ولادت کی تاریخ لفظِ ”عاشق ” سے اور عمر شریف لفظِ ”کمال ” سے نکلتی ہے اسی طرح سنِ وصال کے الفاظ بحساب ابجد ”معشوق ِ الہی ” ہیں کیا خوب کہا ہے سنینش ”کامل ” و ”عاشق ” تولد وصالش داں ز ”معشوق الہی ” اسم مبارک
اسم ِ گرامی عبد القادر تھا،کُنیت آپ کی ابو محمد تھی ، آپ کو محیٰ الدین ، محبوبِ سبحانی ، غوث الثقلین اور غوثِ اعظم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے آپ کے والد گرامی کا اسم ِ مبارک سید ابو موسیٰ صالح جنگی دوست ۔۔۔۔جنگی دوست کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے بے پناہ شیدائی تھے اور نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے کے لیے مردِ دلیر تھے ، حضور غوث پاک کی والدہ محترمہ کا اسم ِ گرامی فاطمہ اور کُنیت اُم لخیر تھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حضور غوث پاک کی والدہ محترمہ اپنی کُنیت کی زندہ اور عظیم مثال تھیں جبکہ لقب اُمَتہُ الجبار تھا ، سرکارِ بغداد نجیب الطرفین سید ہیں والد ماجد کی طرف سے حسنی اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی ہیں آپ کا معزز سلسلہ نسب والد گرامی کی طرف سے گیارا واسطوں سے اور بواسطہ والدہ محترمہ چودہ واسطوں سے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتا ہے والد گرامی کی طرف سے حضور غوثِ اعظم شیخ عبد القادر گیلانی بن سید ابوصالح موسیٰ جنگی دوست بن سید ابو عبد اللہ بن سید یحیٰ الزاہد بن سید محمد بن سید دائود بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبد اللہ بن سید موسیٰ الجون بن سید عبد اللہ المحض بن سید امام حسن بن سید امام حسن المجتبیٰ بن سیدنا شیر ِ خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہے (النجوم الزھرہ ، ص 371،جلد 5)
مادری سلسلہ نسب والدہ ماجدہ کی طرف سے آپ کا نسب سیدہ اُم الخیر فاطمہ بنتِ السید عبداللہ صومعی الزاہد بن سید ابو جمال الدین محمد بن الامام السید محمود بن الامام سید ابو العطا ء عبد اللہ بن امام سید کمال الدین عیسیٰ بن امام السید علائو الدین محمد الجواد بن امام سید علی رضا بن امام موسیٰ کاظم بن امام سید نا جعفر صادق بن سیدنا امام محمد الباقر بن امام علی زین العابدین بن امام حسین بن علی بن ابی طالب شیر ِ خدا رضی اللہ عنھم اجمعین (سفینة الاولیاء مصنف داراشکوہ ص،43)
غوث الاعظم کی منفرد خصوصیات حضور غوث الاعظم کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان صفات سے نوازا ٭حضورنبی کریم ۖ کا خلق ٭سیدنا یوسف علیہ السلام کا حسن ٭حضرت ابو بکر صدیق کی صداقت ٭حضرت عمر فاروق کا عدل ٭حضرت عثمان ِ غنی کا حلم ٭حضرت علی مرتضیٰ کی شجاعت
حلیہ مبارک حضرت سیدنا غوث الاعظم حضرت سیدنا غوث الاعظم نحیف البدن ، قد میانہ ، سینہ مبارک فراخ ، ریش مبارک دراز اور حسن و جمال میں اضافہ کا باعث ، دور و نزدیک میں سماعت یکساں ، کلام سرعت تاثیر و قبولیت کا جامع ،جمال با کمال ، ایسا کہ سنگ دل بھی دیکھتا تو اتنا نرم ہو جاتا اور اس پر خشوع و خضوع کی کیفیت نمایاں ہوتی ، چہرے کو گھیرے ہوئے ، رنگ گندم گوں ، دونوں ابرو ملے ہوئے ، ابرو بلند ، بدن نازک ،ایسے جیسے گلاب کے پھول کی پنکھڑی ہو ، پیشانی کشادہ اور اُس پر کبھی بھی خفگی یا اظہار ِ ناراضی کے باعث بل نہیں دیکھے گئے ، لب شگفتہ ،جیسے صندل کی ڈلی ، چہرہ روشن و تابندہ ،ایسا جیسے نور کا ہالہ ہو ، ذی وقار ، نرم گفتار ، کم گو اہل علم میں ہمیشہ ممتاز اور منفرد تھے آپ کو دیکھنے والے پر رُعب کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی جلال و جمال کی کیفیتوں سے مزین تھے ، شرم و حیا کا پیکر ، نظافت و لطافت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ، چلتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے بادِ صبا کا ایک خوشگوار جھونکا ، آپ کی ذات روحانیت کے جھلستے صحرا میں پیاسی انسانیت کے لیے ”آبِ زُلال ” کی حیثیت رکھتی تھی جہاں سے رو حانیت اور علم کے پیاسے علم و حکمت کے کٹورے سیر ہو کر پیتے
حضور غوث پاک کا بچپن پیدا ہونے والے سب بچوں کا بچپن ایک جیسا نہیں ہوتا ، بعض بچے تربیت کی بنیاد پر صالحیت کی منازل طے کرتے ہیں اور بعض مادر زاد ولایت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں۔
حضور غوث پاک کی والدہ محترمہ فرماتی ہیں کہ ”پورے عہدِ رضاعت میں آپ کا یہ حال رہا کہ سال کے تمام مہینوں میں آپ دودھ پیتے تھے لیکن جوں ہی رمضان المبارک کا چاند نظر آتاآپ دن کو سورج غروب ہونے تک دودھ کی بالکل رغبت نہیں فرماتے تھے خواہ کتنی ہی دودھ پلانے کی کوشش کی جاتی ہر بار آپ کی والدہ محترمہ آپ کو دودھ پلانے میں ناکام رہتیں۔
غوثِ اعظم متقی ہر آن میں چھوڑا ماں کا دودھ بھی رمضان میں
بچپن ہی میں سایہ پدری سر سے اٹھ گیاابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ،مزید تعلیم کے لئے 488ھ میں بغداد پہنچے جو اس وقت علم وفضل کاگہوارہ،علماء ومشائخ کامسکن اور علمی وسیاسی اعتبارسے مسلمانوں کا دارالسلطنت تھا، یہاں آپ نے اپنے زمانہ کے معروف اساتذہ اور آئمہ فن سے اکتساب فیض کیا، آپ کے اساتذہ میں ابوالوفا علی بن عقیل حنبلی ،ابوز کریا یحییٰ بن عبدا لکریم نہایت نامور اور معروف بزرگ ہیں۔کہا جاتا ہے آپ کا بچپن نہایت پاکیزہ تھا ،بچپن ہی سے اللہ تعا لیٰ نے اپنے اس برگزیدہ بندے پر اپنی روحانی و نورانی نوازشات اور فیو ضاتِ الہیہ کی بارش کا نزول شروع کیا ہوا تھاچنانچہ حضور غوث پاک اپنے لڑکپن سے متعلق خود ارشاد فر ماتے ہیں کہ ”عمر کے ابتدائی دور میں جب کبھی میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا تو غیب سے آواز آتی کہ لہو و لعب سے باز رہو ، جسے سن کر میں رک جایا کرتا تھا اور اپنے گردوپیش پرجو نظر ڈالتا تو مجھے کوئی آواز دینے والا دکھائی نہ دیتا تھا جس سے مجھے وحشت سی معلوم ہوتی تھی اور میں جلدی سے بھاگتا ہوا گھر آتا اور والدہ محترمہ کی آغوش میں چھپ جایا کرتا تھا ، اب وہی آواز میں اپنی تنہائیوں میں سنا کرتا ہوں اگر مجھ کو کبھی نیند آتی ہے تو وہ آواز فوراََ میرے کانوں میں آکر مجھے متنبہ کر دیتی ہے کہ تم کو اس لیے نہیں پیدا کیا کہ تم سویا کرو۔