تحریر: شیخ خالد ذاہد پاکستان کے حصول کیلئے دی جانے والی قربانیوں کو ہم “تحریکِ پاکستان” سے منسوب کرتے ہیں۔ تحریک پاکستان جلسے اور جلوسوں کی شکل میں چلائی گئی، دنیا کی دیگر تحریکوں کا حال بھی ایسا ہی ہے بات جب اجتماعی نوعیت کی ہو عوامی مسائل کی ہو تو جلسے اور جلوسوں میں ہی ہوا کرتی ہے۔ ان جلسے اور جلوسوں کی بدولت ہی لوگوں میں پاکستان کی اہمیت و افادیت کا بیج بویا گیا اور ان ہی جلسے اور جلوسوں کے ذریعے اس بیج کی آبیاری بھی کی گئی۔ ہم پاکستانیوں کی بطور قوم جو پرورش ہوئی اس میں ان جلسے اور جلوسوں نے قلیدی کردار ادا کیا ہے۔
کوئی آپ کا ووٹر ہو یانا ہو، جلسے میں آپ کا سپورٹر بن کر ضرور شرکت کرتا ہے۔ ہم پاکستانی آج تک جلسے جلوسوں اور دھرنوں سے نہیں نکل پائے۔ ایک طرف مذہبی جلسے جلوسوں کی بہتات ہے تو دوسری طرف سیاسی جلسے جلوس۔ ان جلسے جلوسوں کی پاکستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت ہے اگر یہ کہا جائے کے پاکستانی سیاست ان جلسے جلوسوں کے بغیر ادھوری یا سونی ہے تو قطعی غلط ناہوگا۔ یہ جلسے کبھی کسی کی مخالفت میں ہوتے ہیں تو کبھی کبھار یہ حمایت میں بھی ہوجاتے ہیں، ویسے حمایت میں کشمیر یا ملکی بقاء کی خاطر ایسا ہوتا ہے اکثر یہ حکومت مخالف ہی ہوا کرتے ہیں۔ پہلے ان جلسوں کا مرکز کراچی یا لاہور ہوا کرتا تھا مگر اب جہاں پاکستان کے ہر شہر کو ان جلسوں نے رونق بخشی ہے وہیں ہمارا دارلخلافہ بھی اس رونق سے آراستہ ہوا ہے۔ اسلام آباد کے پر سکون ماحول اور پرسکون سڑکوں کو بھی اپنی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہوگا کیونکہ اب ان جلسے جلوسوں کا مرکز بھی پاکستان کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ جلسے جلوسوں سے بھری پڑی ہے یہ کبھی کسی کے خلاف تھے تو کبھی کسی کے خلاف مگر ہماری سڑکیں کبھی سونی نہیں رہیں۔ یہ سڑکیں دراصل گاڑیوں کو رواں دواں اور سبک رفتار سفر کیلئے بنائی جاتی ہیں اور گاڑیوں کی بدولت ہی یہ سڑکیں پررونق تو کبھی سنسان لگتی ہیں مگر انہیں ٹریفک کے اژدھام نے تو آباد رکھا ہی ہے مگر یہ جلسے جلوسوں کیلئے بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں سڑک بند کروادی جاتی ہے اور عوام کو مجبوراً ان کا حصہ دکھادیا جاتا ہے۔
Dharna
مورخین اگر کسی سیاسی وابسطگی کے بغیر تاریخ رقم کرینگے تو وہ اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کی حقیقت اس کے وجود کی نسبت سے تحریر کرینگے جو یقیناً پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا سب سے طویل اور بڑا عام آدمی کا سیاسی اجتماع تھا۔ اس تاریخی دھرنے کا انجام ایک انتہائی افسوسناک تاریخی سانحہ کی شکل میں ہوا جب پشاور آرمی پبلک اسکول میں معصوم زندگیوں کے خون سے اسکول کے در و دیوار لال کردئیے گئے۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے ساری قوم کو اشکبار کردیا لوگ اپنے اپنے گھروں میں ٹیلی میڈیا پر ننھے منے لاشے دیکھ رہے تھے اور ہر سارا ملک کراچی سے خیبر تک سوگ کی کیفیت میں چلا گیا تھا۔ اس واقع نے جہاں پوری قوم کو غمزدہ کیا تو دوسری طرف حکومت کی بقاء کو دوام بخشا اور عمران خان نے تاریخی دھرنے کو بغیر کسی منطقی انجام تک پہنچائے ختم کرنا پڑا۔
اس دھرنے کے دوران ساری سیاسی جماعتیں ایسی متحد ہوئیں جیسے یہ آپس میں کبھی لڑی ہی نا ہوں اور ملک کی انتہائی خیر خواہ ہوں، قومی اسمبلی کا اجلاس روزانہ کی بنیاد پر ہوتا رہا اور کورم بھی پورا رہا، تمام وزراء تمام اپوزیشن اراکین بشمول وزیرِاعظم صاحب اسمبلی حال کو رونق بخشتے رہے۔ یہ تمام لوگ جمہوریت کے نام پر کرپشن کو بچانے کیلئے روزانہ تقریریں کرتے رہے۔ دھرنا ختم ہوا نہیں پھر سب اپنی اپنی راگنی آلاپنے لگے۔ دھرنے کی ریاضت آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی نظر ہوگئی مگر حکمرانوں نے اپنی روش میں کسی تبدیلی کو جگہ نہیں دی۔
Change
معاشرتی مزاج پر نظر ڈالیں اپنے آس پاس لوگوں سے گفتگو کریں آپ کو محسوس ہوگا لوگوں کے مزاج میں کچھ نا کچھ تبدیلی ضرور آئی ہے۔ سندھ اور خصوصی طور پر کراچی کے حالات کو لے لیجئے ایک بہت واضح فرق آچکا ہے کراچی کی نمائندہ جماعت اب جماعتوں میں تقسیم ہوچکی ہے، سوشل میڈیا پر برے کو برا کہا جانے لگا ہے کسی حد تک حق گوئی کی طاقت بھی نظر آرہی ہے۔ ایک کہاوت ہے “گیہوں کے ساتھ گہن بھی پستا ہے” کچھ برائی نما چیزوں نے بھی معاشرے میں سر اٹھایا ہے جس میں بقول “بڑوں” کے عزت نہیں کی جارہی اب انہیں یہ کون بتائے کے “عزت اور ذلت تو اللہ کے ہاتھ ہے” پھر کچھ خود بھی محاسبہ کرلیں کہ ہم نے عزت لینے والا کیا کام کیا ہے ۔ پانی سر تک پہنچا، سر سے اونچا ہوا اور پھر بہنا شروع ہوگیا، بندوبست کرنے والوں نے بندوبست کرلئے اور جن کے نصیب میں ڈوبنا لکھ دیا گیا تھا وہ ڈوب گئے۔ مختصراً یہ کے پچھلے دھرنے کی بدولت معاشرتی تبدیلی آئی ہے لوگ اب خوفزدہ نہیں دکھ رہے لوگوں میں اب کچھ اعتماد دکھنا شروع ہوا ہے۔ ابھی اس اعتماد کو اور آگے بڑھنا ہے رشوت دینے والے کو گھسیٹ کر سڑک پر لانا ہے یا کم ازکم منظرِعام یا پھر سرِ عام تو لانا ہی ہے۔ دو نومبر کی تاریخ اگلے دھرنے کیلئے چنی گئی ابھی دو نومبر ایک ہفتہ دور تھا کہ کوئٹہ کا سانحہ ہوگیا اور ہمارے ملک کے دشمن دہشت گردوں نے نہتے طالب علموں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا اور ہماری تاریخ میں ایک اور سیاہ باب رقم کردیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا دونومبر کی تاریخ میں توسیع ہوتی ہے یا پھر دونومبر کو ہی دھرنا دیا جائے گا۔
ہم پاکستانیوں نے اپنے سیاسی رہنماؤں کو دو دو اور تین تین بار مواقع فراہم کئے ہیں، ہم نے ڈکٹیٹروں کو بھی خوب جھیلا ہے اور جمہوریت نے سوائے کرپشن اور بے ایمانی کے فروغ کے علاوہ آج تک کچھ بھی نہیں دیا۔ اب ایک موقع نئے لوگوں کو بھی دے کر دیکھنا چاہئے ورنہ یہ باریوں والے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑنے والے ان کی اولادیں ملک سے باہر رہتی ہیں اور پھر آکر ہمارے اوپر مسلط کر دی جاتی ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی مینیجنگ ڈائیریکٹر نے بھی واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ جب تک آپ کرپشن بند نہیں کرتے اس وقت تک ملک اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے دھرنے والوں کا بھی تو یہی کہنا ہے کہ خدارا کرپشن بند کردو۔ اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی شہیدوں کی فہرست مرتب کر لی جائے اور دورخے سیاستدانوں سے جان چھڑا لی جائے۔ تمام بڑے تجزیہ نگاروں کے تجزئیے سر آنکھوں پر مگر ہم کب تک اپنے ملک کو گھسٹتے رہنگے ہم کب تک لاشوں کے ڈھیر دفناتے رہنگے بس اب بہت ہو چکا ہے، ابکی کچھ مختلف کرنا پڑےگا۔ دونومبر پاکستان کی تاریخ میں تاریخی مقام حاصل کرنے جا رہا ہے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو (آمین)۔