بنگلہ دیش میں حالیہ انتخابات کے بعد اگرچہ اس کے سیاسی اثرات پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک پر بھی منفی یا مثبت پڑیں گے لیکن پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کے سلسلے میں نظرثانی کرنی پڑے گی قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ بنگلہ دیش میں یہ انتخابات دیگر انتخابات سے مختلف ہو نگے۔ بنگلہ دیش میں تاریخ کے خونریز ترین انتخابات کے بعد عوامی لیگ نے اپنی برتری کا اعلان کیا ہے اور سرکاری ترجمان اصرار کر رہے ہیں کہ وہ ایک مضبوط حکومت بنا کر انتہا پسندی اور تشدد کا خاتمہ کر دیں گے۔ آج کے انتخابات میں صرف عوامی لیگ اور اس کی حامی جماعتوں کے امیدوار سامنے آئے تھے اور صرف 20 فیصد ووٹروں نے انتخاب میں حصہ لیا۔
2008کے انتخابات میں ووٹنگ میں حصہ لینے والوں کی تعداد 70فیصد کے لگ بھگ تھی۔ اس طرح آج منعقد ہونے والا انتخاب درحقیقت عوام کی طرف سے موجودہ حکومت اور انتخابات میں ”واضح اکثریت” حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو مسترد کرنے کا ووٹ تھا۔ اس سے واضح رائے کا اظہار جمہوری طریقے سے شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ تاہم وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے اپوزیشن کے احتجاج اور انتخابات میں درحقیقت ناکامی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ متعدد سرکاری نمائندوں نے کہا ہے کہ عوامی لیگ ایک مضبوط حکومت بنا کر ملک میں امن و امان بحال کرے گی۔اپوزیشن پارٹیوں نے حالیہ انتخابات کو ملک میں جمہوریت کے ساتھ مذاق قرار دیا ہے۔ 25سے زائد پارٹیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ آج کے انتخابات کو کالعدم قرار دے کر نئے انتخابات کروائے جائیں۔ یہ مطالبہ کرنے والی جماعتوں میں ملک کی مقبول سیاسی جماعت بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی BNP اور جماعت اسلامی بھی شامل ہیں۔ شیخ حسینہ کی حکومت نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے گزشتہ چند برس سے سخت گیر رویہ اختیار کیا تھا۔ خاص طور سے جماعت اسلامی اور بی این پی کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔
حکومت نے خصوصی ٹریبونل بنا کر 1971کے جرائم کی پاداش میں جماعت اسلامی کے متعدد لیڈروں پر مقدمات قائم کئے تھے۔ گزشتہ ماہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ایک لیڈر عبدالقادر ملا کو پھانسی پر چڑھا دیا گیاتھا۔اس کے علاوہ بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی کے کارکنوں اور لیڈروں کو بھی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بی این پی کی لیڈر خالدہ ضیاء کو گزشتہ ایک ہفتے کے دوران گھر میں نظربند رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف متعدد مقدمات بھی قائم کئے گئے ہیں۔ حکومت کو اپنی عدم مقبولیت کا احساس تھا اور شیخ حسینہ اور ان کے ساتھی یہ سمجھتے تھے کہ غیر جانبدارانہ انتخابات میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکے گی۔ اس لئے حسب روایت حکومت نے استعفیٰ دینے اور انتخابات کے انعقاد کے لئے غیر جانبدارانہ عبوری حکومت قائم کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ اسی لئے اپوزیشن نے حکومت کے جابرانہ اور غیر جمہوری رویہ کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا ہؤا ہے۔
Awami League Flag
بنگلہ دیش کی حکومت نے انتخابات کے نام پر جو ڈھونگ رچانے کی کوشش کی ہے اس کو عالمی طور سے بھی مسترد کیا گیا ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین نے انتخابات کے موقع پر اپنے مبصر روانہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ فیصلہ مغربی اقوام کی طرف سے بنگلہ دیشی حکومت اور انتخابات کے طریقہ کار پر عدم اعتماد کا اظہار تھا۔ تمام مؤثر سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کے نتیجے میں ملک میں پارلیمنٹ کی 300 نشستوں پر صرف 147 پر انتخاب منعقد ہوا تھا۔ ان میں سے 8 نشستوں پر انتخابی عمل مؤخر کر دیا گیا ہے جبکہ باقی نشستوں میں سے عوامی لیگ نے 105 نشستیں حاصل کر لی ہیں۔ باقی ماندہ نشستوں میں سے اسے 127 پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ یعنی اس کے امیدوار بلامقابلہ کامیاب قرار دیئے گئے ہیں۔ جو نشستیں عوامی لیگ کے امیدوار نہیں جیت سکے وہ حکومت کی حمایت کرنے والی چھوٹی چھوٹی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو حاصل ہو گئی ہیں۔
اس طرح آج منعقد ہونیوالے عام انتخاب میں جو صورت حال سامنے آئی ہے اس کے مطابق ملکی پارلیمنٹ میں عملی طور پر کوئی اپوزیشن نہیں ہو گی۔ اس کے باوجود حکومت کا اصرار ہے کہ لوگوں نے اسے ووٹ دے کر کامیاب کروایا ہے۔ اس لئے اسے حکومت سازی کا مکمل حق حاصل ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام، سیاسی جماعتیں اور عالمی رائے عامہ اس مؤقف کو مسترد کر چکی ہے۔بنگلہ دیش کے اخبارات نے بھی ان انتخابات کو ڈھونگ قرار دیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری طور پر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مذاکرات شروع کر کے صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش نہیں کی تو ملک میں انتشار اور بدامنی میں اضافہ ہو گا۔ نئی حکومت کی اتھارٹی بھی مشکوک رہے گی۔ اس واضح اور دوٹوک رائے کے باوجود شیخ حسینہ ابھی تک اپوزیشن سے بات چیت کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ کیونکہ اس قسم کے مذاکرات کے نتیجہ میں انہیں نئے انتخابات منعقد کروانا پڑیں گے۔ اور یہ نوشتہ دیوار ہے کہ کسی بھی غیر جانبدارانہ انتخابات میں عوامی لیگ کو عبرتناک شکست ہو گی۔
حکومت اپوزیشن پر انتہاپسندی کو فروغ دینے اور انتشار پیدا کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ اپنے تازہ ہیوی مینڈیٹ کے بل بوتے پر ملک سے انتشار کا خاتمہ کر دے گی۔ تاہم اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ ناراض اپوزیشن اور مایوس سیاسی کارکنوں کے تعاون کے بغیر ملک میں بحالء امن کے لئے کوئی مؤثر کارروائی کر سکے گی۔2013 بنگلہ دیش میں سیاسی دہشت گردی کا سال تھا۔ اس ایک برس میں مختلف حملوں میں پانچ سو سے زائد سیاسی کارکن ہلاک کئے گئے ہیں۔ ان میں سے 170افراد محض حالیہ انتخابی مہم کے دوران مارے گئے ہیں۔ اتوار کے روز منعقد ہونے والے انتخابات کے دوران 24افراد مارے گئے جبکہ 600سے زائد پولنگ اسٹیشن نذرآتش کر دیئے گئے۔
Sheikh Mujibur Rahman
بنگلہ دیش 160 ملین آبادی کا ایک غریب ملک ہے۔ اس کی وسیع آبادی غربت اور محرومی کا شکار ہے۔ عوامی لیگ کی خودغرض اور بدعنوان حکومت عوام کی ضرورتیں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اب اس نے ان کے جمہوری حق پر بھی ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ دریں حالات اس بات کا امکان نہیں ہے کہ موجودہ حکومت حالات کو بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عوامی لیگ ہی کی قیادت میں مشرقی پاکستان کے عوام نے 1970کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کو اپنا لیڈر چنا تھا۔ انہوں نے بنگالی عوام کے حقوق کا اعلان کرتے ہوئے 1971 میں پاکستان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی تھی۔ اب اسی بنگالی عوام کے بابائے قوم کی بیٹی اپنے ملک کے عوام کو اسی جمہوری حق سے محروم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس بات کا ہرگز کوئی امکان نہیں ہے کہ بنگلہ دیش کے لوگ اپنے بنیادی حق کے خلاف اس کارروائی کو قبول کر لیں گے۔ حکومت کو جلد یا بدیر نئے انتخابات کا مطالبہ تسلیم کرنا ہو گا۔ البتہ اس فیصلہ میں جتنی تاخیر کی جائے گی، حالات اسی قدر خراب ہوتے چلے جائیں گے۔