تحریر: محمد اشفاق راجا معلوم نہیں کہ ناظرین و قارئین اسے صحبت کا اثر قرار دیں گے یا تربیت میں نقص کی نشان دہی کریں گے، گزشتہ روز بیک وقت دو مختلف بیانات پڑھے اور دکھ ہوا کہ سیاست میں سے سنجیدگی اور شرافت رخصت ہوگئی ہے ، فرزند راولپنڈی کے بارے میں تو کچھ کہنا ہی بے کار ہے کہ وہ شاید دوسروں کے حوالے سے غلیظ زبان بولنا فخر جانتے ہیں لیکن عمران خان کے بارے میں کیا کہیں گے کہ ایک تووہ ہر وقت دھمکی دینے کے موڈ میں نظر آتے ہیں ، دوسرے انہوں نے سٹارٹ ہی”اوئے” ”اوئے” اور”او” سے لیا تھا، اور اب انہوں نے بہت بڑی بات کہہ دی ہے جس کے اثرات اور آداب کا انہیں دور دور تک احساس نہیں ہے، یوں بھی ایسی زبان کسی قومی لیڈر کی ہو اس پر جتنا بھی دکھ ظاہر کیا جائے کم ہے۔
راولپنڈی والے شیخ رشید ان دنوں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے مشیر خاص بنے ہوئے ہیں، وہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود حزب اختلاف کی کسی جماعت کو رائے ونڈ مارچ میں شرکت پر آمادہ نہیں کرسکے تو اب انہوں نے اپنی زبان سے گند اگل دیا وہ کہتے ہیں، اپوزیشن کے جو لوگ رائے ونڈ نہیں جائیں گے وہ گندے انڈے اور منافق ہوں گے، شیخ رشید نے یہ کہہ کر نہ تو ان الفاظ کی معنویت پر غور کیا اور نہ ہی ان کے اثرات کا جائیزہ لیا ہے، حزب اختلاف کی تو کسی بھی جماعت نے رائے ونڈ جانے کی حامی نہیں بھری تو ان کے نزدیک یہ سب گندے انڈے اور منافق ہیں، جہاں تک منافقت کا تعلق ہے تو غالباً ان کا اشارہ قبلہ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف ہے کہ بقول شیخ رشید انہوں (طاہر القادری) نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کا عندیہ دیا تھا اور پھر وہ بیرون ملک چلے گئے اس صورت میں ڈاکٹر طاہر القادری خود قادرالکلام ہیں اور مناسب جواب دے سکتے ہیں اگرچہ اب تک عوامی تحریک کے میڈیا سیل سے جواب آ بھی چکا ہو گا۔ شیخ رشید نے گندے انڈے کہا تو شاید وہ بھولے بن گئے ہیں کہ ان کو ان کے معنی کا بھی علم نہیں اور یہ خاص ترکیب کیا تاثر دیتی ہے۔ انہوں نے نہ تو عمران خان کی خدمت کی اور نہ ہی اپوزیشن کے لئے ماحول کو بہتر بنایا بلکہ سب کو ناراض ہی کیا انہوں نے مسلم لیگ (ن) ہی کی خدمت کی ہے۔
Imran Khan
دوسری طرف عمران خان کو بھی بات کرتے وقت احساس نہیں ہوا۔ وہ لاہور میں رہے، لاہور والوں کے ساتھ ان کی گہری دوستیاں ہیں وہ حویلیوں میں آتے جاتے اور راتیں جاگتے رہے ہیں۔ ان کو لاہور کی نقافت سے واقف ہونا چاہیے انہوں نے رشتہ مانگنے والی جو بات کی ہے، وہ پنجاب خصوصاً لاہور میں بہت بڑی گالی ہے جسے کوئی برداشت نہیں کرتا، اب اگر اسے گہرائی سے دیکھا جائے تو ان کا اشارہ رائے ونڈ کی طرف بنتا ہے اگر وہ اس کو نہ مانیں تو پھر ڈاکٹر طاہر القادری نشانہ ہیں، ہر دو صورتوں میں ”میں رشتہ مانگنے تو نہیں جا رہا” کوئی مزاحیہ جملہ نہیں ہے یہ بڑا رکیک جملہ ہے۔ اگر ان کو علم نہیں تو اپنے کسی لاہوری ساتھی سے پوچھ لیں، بہتر ہوگا میاں اسلم اقبال سے پوچھیں کہ لاہور میں اگر کسی کو فقرہ کہیں تو اس کا فطری جواب کیا ہوگا۔
یہ بہت ہی افسوسناک صورت حال ہے۔ اس میں ثقافت کو بھی کچلا جا رہا ہے اور معاشرتی آداب بھی پامال ہو رہے ہیں نہ تو عمران خان نے یہ کہہ کر کوئی سیاسی خدمت کی ہے اور نہ ہی شیخ رشید کوئی کارنامہ انجام دے سکے ہیں، ابھی اگلے ہی روز بابا جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی 13 ویں برسی تھی۔ ان کے بارے میں مضامین بھی شائع ہوئے۔ ہم ذاتی طور پر بھی ان کے مداح ہیں، ہم نے طویل عرصہ رپورٹنگ کی، نوابزادہ نصراللہ شیخ مجیب الرحمن سے ایوب خان۔ یحییٰ خان سے ذوالفقار علی بھٹو اور ضیائ الحق سے پرویز مشرف تک کے بہت بڑے ناقد اور مخالف بھی رہے۔ انہوں نے کبھی بھی ان حضرات کا نام صاحب کا لاحقہ لگائے بغیر نہیں لیا۔ جناب شیخ مجیب الرحمن صاحب اور جناب پرویز مشرف صاحب ہی کہتے تھے حالانکہ تنقید انتہائی سخت کرتے تھے۔ یہاں تو رشتہ لینے والی بات کہہ کرخان صاحب بے ساختہ مسکرا رہے تھے۔ بہتر ہوگا کہ وہ اندرون موچی دروازہ اور گوالمنڈی میں ہونے والی گفتگو کی ویڈیو یا ٹیپ منگوا لیں تو شاید ان کو کوئی احساس ہو جائے۔ سیاست میں بھی شائستگی لازم ہے۔
Chaudhry Nisar Ali Khan
بات تو کرنا تھی موجودہ حکومت کے اہم وفاقی وزیر چودھری نثار علی خان کے تازہ ترین بیان کی، انہوں نے چکری میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کے جنگی جنون کے مقابلے میں پوری قوم متحد ہے۔ تمام سیاسی راہنما بھی اتحاد کی بات کر چکے ہیں تاہم ان سب کو عمل سے ثابت کرنا ہوگا اور اجتماعی یکجہتی کا مظاہرہ ضروری ہے۔ چودھری نثار تجربہ کار پارلیمینٹرین ہیں، وہ انا پرست بھی ہیں، اور درست بات بھی کرتے ہیں، ان کا فرمانا بالکل صحیح اور حقیقت پسندی ہے، تاہم اجتماعی یکجہتی والی بات درست ہوتے ہوئے بھی ذمہ داری کسی دوسرے پر نہیں ڈالی جا سکتی یہ برسر اقتدار حضرات کا فرض تھا اور ہے کہ وہ ایک اجتماعی اتحاد کا اہتمام کریں کہ پوری دنیا کو یہ پیغام صحیح طور پر پہنچ جائے۔
اول تو وزیر اعظم کو اقوام متحدہ جانے سے پہلے سب سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا اہتمام کر کے ان کی حمایت حاصل کرنا چاہئے تھی اور اگر اس میں ان کی اختیار کل والے مزاج کا دخل نہیں تو پھر اب وہ واپس آئے ہیں تو اب بھی یہ اہتمام کر لیں اور بقول ڈاکٹر فاروق ستار کل جماعتی کانفرنس بلا لی جائے۔ چودھری نثار علی خان کو چاہئے کہ وہ وزیر اعظم کو آمادہ کریں کہ وہ پاکستان کی سطح پر مشاورت کا اہتمام کریں ا ور سب کو اعتماد میں لینے کے لئے ایک مشاورتی اجلاس بلا لیں اور سب کو مدعو کریں خود اپنا حال دل کہیں اور دوسروں کی سنیں اس پر جو تاثر ابھرے ا اور جو اعلامیہ آئے گا وہ دنیا پر اثرات مرتب کرے گا۔ چودھری نثار نے درد مندی سے باتیں کی ہیں۔ بہت سے اہم انکشاف نما فقرے بھی بولے ہیں تو وہ اتحاد کے لئے خصوصاً اجتماعی اتحاد کے لئے عملی قدم اٹھائیں۔