تحریر : ملک محمد سلمان شیخ زید ہسپتال کا شمار پنجاب کے بہترین ہسپتالوں میں ہوتا تھا لیکن جب سے سیاسی اثرورسوخ سے نیا چئیرمین آیا ہے ،ہسپتال کی حالت زار روز بروز بد ستے بدتر ہوتی جارہی ۔چئیرمین شیخ ہسپتال ڈاکٹر فرید احمدخاں کے جرائم ،مالی بے ظابطگیوں اور فراڈ کی طویل فہرست ہے۔جن میں سے منظر عام اور زبان زد عام ہونے والے کچھ کارہائے نمایاں پیش خدمت ہیں۔
ڈاکٹر فرید احمد خان نے بطوراسسٹنٹ پروفیسر اپنی ملازمت کا آغاز ہی دھوکہ دہی اور جعلی دستاوزات کا سہارا لیتے ہوئے کیا۔موصوف خود کو یوکے میں رجسٹرڈ پلاسٹک سرجن ظاہر کرتاہے اور اپنے لیٹر پیڈ پربھی یوکے میں کلینک کا ایڈریس فخریہ پیش کرتا ہے۔بطور پلاسٹک سرجن رجسٹریشن کے ثبوت کیلئے GMC No. 4605344کا لیٹر پیش کرتا ہے۔واضح رہے کہ یوکے میں جب تک پریکٹس کرنے کا GMCکا لائسنس نہ ہوپریکٹس کرنا تو درکنار خود کو پریکٹسنگ ڈاکٹر ظاہر کرنا بھی فوجداری جرم ہے۔ڈاکٹر فرید احمد خان کا پیش کردہ رجسٹریشن نمبر GMCسے چیک کروایا تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر فرید احمد خان نہ تو سپیشلسٹ ڈاکٹرہے اور نہ ہی بطور ڈاکٹر پریکٹس کر سکتا ہے۔یوکے میں رجسٹرار اور ٹرینی رجسٹرار میں واضح فرق ہے۔پاکستان میں بھی PMDCٹرینی رجسٹرار کے تجربے کو بطور ٹیچنگ ڈاکٹر بھی تسلیم نہیں کرتا۔ڈاکٹر فرید نے بطور اسسٹنٹ پروفیسر سرکاری ملازمت حاصل کرتے وقت PMDCکو جو دستاویزات پیش کیں اس میں UKمیں بطور رجسٹرار 01-06-1996سے 05-10-1996اور بطور سنئیر رجسٹرار 10-10-1996سے 30-05-1998پیش کیا۔جبکہ مذکورہ ڈاکٹر نے FCPSپاکستان میں 1998میں کیا اور برطانیہ سے FRCSجنرل سرجری 1999میں مکمل کیا۔اس طرح یہ ممکن ہی نہیں کہ UKمیں FRCSکے بغیر ہی رجسٹرار کے عہدہ پر فائز ہوا جا سکے۔
2007میں میو ہاسپٹل میں پلاسٹک سرجری کے پروفیسر کی تقرری کے موقع پر دوسرے امیدوارغلام قادر نے ڈاکٹر فرید کے تجربے اور سرٹیفیکیٹ کے جعلی ہونے کا اعتراض لگایا۔اکتوبر 2007میں PMDCنے اپنے لیٹر میں تسلیم کیا کہ ڈاکٹر فرید احمد کا پیش کردہ سرٹیفیکیٹ جعلی و بوگس ہے۔ڈاکٹر فریداحمد خان کو جعلی وبوگس سرٹیفیکیٹ تیار کرنے اور اس کے سرکاری استعمال پر سزا دینے کی بجائے سیاسی دبائو اور باہم ساز باز سے نومبر میں کلئیر کردیا گیااور ایک جعل ساز کو پروفیسر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ترقی کا سفر چلتا رہا ہے اورآج وہی ڈاکٹر اپنے سابقہ کلاس فیلووفاقی وزیرخواجہ سعد رفیق اورصوبائی وزیر صحت سلمان رفیق سے باہم ساز باز سے جعلی دستاویات کے حامل اور مطلوبہ کوائف اور اہلیت پر پورا نہ اترنے کے باوجودچئیرمین شیخ زید ہسپتال کے اہم ترین عہدے پر فائض ہوکر سیاہ و سفید کا مالک ہے۔
سیاسی مداخلت اور اختیارات سے تجاوز کا اندازہ اس اقدام سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شیخ زید ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کی عدم موجودگی کے باوجود وزیر اعلیٰ پنجاب نے فرید احمد خان کو شیخ زید ہسپتال کے چیئرمین کے عہدے پر تعینات کر دیاجبکہ پنجاب میںپروفیسرز کی سنیارٹی میںڈاکٹر فرید 169 ویں نمبر پر تھے اوراس سے سنئیر پروفیسرز پہلے ہی شیخ زید ہسپتال میں اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر فرید نے چئیرمین بنتے ہی ذاتی تعلقات کے فروغ اور کمیشن کے حصول کیلئے شیخ زیدہسپتال کے تقریباً 75کروڑروپے نیشنل بنک سے نکلوا کر نجی بنک میں منتقل کر دیے۔ڈاکٹر فرید احمد خاں ہسپتال کے پیسے سے شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں۔سرکاری ملازم کو ہوائی جہاز کے سفر کیلئے اکانمی کلاس ٹکٹ کی اجازت ہے لیکن موصوف ”مال مفت دل بے رحم” کے مصداق ملکی و غیرملکی دوروں کیلئے بزنس کلاس کے علاوہ سفر کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ہسپتال کی فارمیسی عدالتی اسٹے پر ہے لیکن چئیرمین کی جیب میں ہر ماہ لاکھوں روپیہ خاموشی سے پہنچ جاتا ہے۔
ابھی حال ہی میں شیخ زید ہسپتال کے جگر اور گردہ وارڈ میں حکومت پنجاب کی طرف سے دی گئی گرانٹ میں مالی بے صابطگیوں کی شکایات سامنے آئیں تو انکوائری کمیشن قائم کیا گیا تو یہ بات ثابت ہوئی کہ حسب سابق ڈاکٹر فرید نے دیگر عملے کی مدد سے جعلی مریضوں کے نام پر ہسپتال کا پیسہ لوٹتے رہے ہیں۔انکوائری کمیشن کی سفارشات پر لوٹی گئی سات کروڑ پچاس لاکھ کی رقم ڈاکٹر فرید اور دیگر ملزمان کو واپس کرنا پڑی لیکن کسی قسم کی دیگر کاروائی نہ گئی۔جرائم ثابٹ ہونے کے باوجود بار بار سزا سے بچ جانے کے باعث ملزم کو مذید جرائم کرنے کی ترغیب ملتی ہے کہ یہاں تو کوئی پوچھ کچھ ہی نہیں۔
قبل ازیں مذکورہ ڈاکٹر بطور پروفیسر میو ہسپتال میں اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قیمتی سرکاری مشینری اپنے ذاتی استعمال میں لانے ،میڈیکل آلات کی چوری اور سرکاری ریکارڈ میں ردوبدل کے جرائم میں ذمہ دار قرارپائے تھے۔ انکوئری کمیٹی کے سامنے جرم ثابت ہو نے پر ان پر دولاکھ ستر ہزار روپے کی ریکورری رقم ڈالی گئی۔
ڈاکٹر فرید احمد خاں نے ”فرینڈز آف پلاسٹک سرجری ”کے نام سے اپنی NGOبھی رجسٹرڈ کروارکھی ہے ،جس میں موصوف خود نائب صدر جبکہ ان کی بیوی ڈاکٹر سمیرا فرید فنانس ڈائریکٹر ہیں۔اس NGOکے زریعے امریکی ادارے”سمائل ٹرین”سے ”ہونٹ کٹے بچوں کے علاج کے نام پر پیسے بٹورے جارہے ہیں” جبکہ ڈاکٹر فرید سرکاری اوقات کار کے دوران مریضوں کا آپریشن سرکاری مشینری سے کرتا ہے۔کوئی بھی سرکاری ملازم کسی NGOکے ساتھ کوئی کاروبار نہیں کرسکتا لیکن ڈاکٹر فریدنہ صرف غیرقانونی کاروبار کرتے ہیں بلکہ غیر قانونی طریقے بھی استعمال میں لاتے ہیں۔امریکی ادارے ”سمائل ٹرین”اور ڈاکٹر فرید کے درمیان220ڈالر فی مریض سپانسرشپ کے معاہدے کی تمام تفصیلات اور کرپشن کہانیاں نمایاں اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بن چکی ہیں مگر محکمہ صحت کی طرف سے ابھی تک بااثر کرپٹ ڈاکٹر کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ارباب اختیار کی مجرمانہ غفلت کرپشن کے فروغ کا باعث بن رہی ہے۔کرپشن،سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال،جعلی دستاویزات بنانے اور استعمال کرنے،سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے اور غیر ملکی تنظیموں سے کام کرکے دھوکہ د ہی سے بھاری رقم بٹورنے والے ڈاکٹر کے احتساب کی بجائے اس کی ترقی لمحہ فکریہ ہے۔شیخ زید ہسپتال کی تباہی میں اکیلا ڈاکٹر فرید ہی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس کے جعلی تجربے اور سرٹیفیکیٹ کو ”سب اچھا ہے”کی تصدیق کرنے والے PMDCکے کرتا دھرتا اور سیاسی پشت پناہی کرنے والے برابر کے شریک ہیں۔عدلیہ ،ایف آئی اے ۔نیب اور اینٹی کرپشن کا فرض بنتا ہے کہ عوام کے پیسے کو ڈاکو بن کر لوٹنے والوں کے خلاف فوری بلاامتیاز کروائی کرے تاکہ وطن عزیز سے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔