کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں وہاں کے ذرائع آمدورفت کو اہم حیثیت حاصل ہوتی ہے اوریہ ذرائع آمدورفت پیداواری مراکز اور زرعی و صنعتی اشیاء کے حصول کے علاقوں کے درمیان مضبوط رابطے ملکی اقتصادی ترقی میںسنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ذرائع آمدورفت مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے جن میں سڑکوں کے ذریعے،ریل کے ذریعے،بحری یا ہوائی جہاز کے ذریعے ۔یہ ذرائع ملک کی اقتصادی ترقی،غربت کے خاتمے اورعوام کو ایک دوسرے سے میل ملاپ اور متحد رکھنے میں مددومعاون ثابت ہوتے ہیں۔
اگر آپ کا شیخوپورہ تا گوجرانوالہ روڈ پر سفر کرنے کا اتفاق ہو تو شیخوپورہ موٹر وے پل سے اترتے ہی ایک تنگ اور ٹوٹی پھوٹی سڑک آپ کا استقبال کرنے کے لئے بے تاب ہو گی اس سڑک کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر کوئی صحت مند انسان اس روڈ پر سے ایک چکر لگا آئے تواسے ہسپتال داخل ہونا پڑتا ہے اوردوران سفر آنتڑیاں قل ہو واللہ کا ورد کرنے لگتی ہیں۔ہچکولے کھاتی بلکتی سسکتی یہ سڑک پرسراریت کا ایک ایسا منظر پیش کرتی ہے کہ نہ جانے کب اور کہاں اچانک کوئی بڑا سا کھڈا آپ کے سامنے آجائے اور اگر آپ اپنی گاڑی پر سفر کر رہے ہیں تو آپ کے ساتھ ساتھ آپ کی گاڑی کا انجرپنجر ہل جاتا ہے اور اگر آپ کسی بس یا ویگن میں براجمان ہیں تو اس قدر زبردست جمپ آپ کو لگتا ہے کہ سر گاڑی کی چھت سے ٹکراتا ہے اور آ پ کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔بلکہ اکثر اوقات تو مسافرگاڑی کی چھت سے سر ٹکرانے سے شدید زخمی بھی ہوجاتے ہیں کیونکہ ویگن یا بس کی چھت کے اندر لوہے کے راڈ لگے ہوتے ہیں۔
ٹیوٹا ویگن کا سفر سب سے اذیت ناک ہوتا ہے کیونکہ ویگن کی سیٹوں کا درمیانی فاصلہ کم ہوتا ہے بمشکل مسافر بیٹھتا ہے تو اس کی ٹانگیں دونوں سیٹوں کے درمیان پھنسی ہوتی ہیں اور اس کے گوڈے اگلی سیٹ کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں جب گاڑی کو جھٹکا لگتا ہے تو گوڈے اس شدت کے ساتھ پریس ہوتے ہیں کہ ہڈی چٹخنے کی آوازیں آتی ہیں اور مسافر بلبلا اٹھتے ہیں۔ مسافر کے کندھے کے ساتھ ایک لوہے کا راڈگزر رہا ہوتا ہے جو بظاہر تو شاید مسافر کی سیفٹی کے لئے ہوتا ہو گا مگر جب گاڑی ہچکولے لیتی ہے تو یہ راڈ با ربارکندھے کی ہڈی کو اتنی ذور سے لگتا ہے کہ کئی دن تک ہڈی کی تکلیف سے منہ سے حکام بالا کے لئے بد دعائیں نکلتی رہتی ہیں۔ قصبہ تتلے عالی سے گزرنے والی روڈ تو اتنی خراب ہے کہ اس میں جابجا کھائی جتنے بڑے بڑے گڑھے پڑ گئے ہیں اور بارش کے دنوں میں گہرے جوھڑ کا منظرپیش کرتے ہیں مقامی لوگوں اور مسافر گاڑیوں کا گزرنا محال ہو جاتا ہے چند قدم کے فاصلے پر بچوں اور بچیوں کے سکول بھی واقع ہیں مسجد ہے قبرستان بھی ہے جہاں جنازہ لے جاتے وقت انتہائی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے طالبعلموں ا ور نمازیوں کے کپڑے خراب ہو جاتے ہیں بازارہے جہاں پیدل چلنا دشوار ہے کسی مریض کو ہسپتال پہنچانا محال ہے ایمبولینس کے وقت پر نہ پہنچنے کی وجہ سے کئی مریض راستہ میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں۔لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ آپ خود ملاحضہ کر سکتے ہیں کہ اس روڈ کے باسی کس کس طرح کی اذیت کا شکار ہیں اور یہ اتنی مصروف روڈ تھی کہ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی بڑی گاڑیاں فیصل آباد سے لے کر پنڈی تک کا سفر اسی روڈ سے کرتی تھیںمگر جب سے اس روڈ کی حالت ناگفتہ بہہ ہوئی ہے مسافر گاڑیوں نے مجبوراََراستہ بدل لیا ہے اورایک طویل راستہ مریدکے روڈ سے ہوتے ہوئے بذریعہ لاہور گوجرانوالہ روڈ یا موٹروے سے کالا شاہ کاکو سے لاہور روڈ کے ذریعے گوجرانوالہ اپنی منزل مقصود پر پہنچتے ہیں۔
سابقہ حکومت میں وزیرِاعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف نے ایک “خادم پنجاب روڈزدیہی پروگرام “شروع کیا جس کا مقصد دیہات میں رہنے والے لوگوں کو بہترین سفری سہولیات مہیا کرنا تاکہ ان کو بنیادی ضروریات کے حصول کے لئے دوردراز کے شہروں میں آنے جانے میں درپیش مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اور زندگی کی بنیادی سہولیات ان کے گھروں کے پاس ہی مہیا ہوں اور شہروں اور دیہاتوں میں بنیادی فرق کو کم کیا جاسکے۔ اور دیہاتی آبادی کو شہروں کی طرف منتقل ہونے سے روکا جا سکے۔اس پروگرام کے تحت سڑکوں کو چوڑا کیا گیا اور نئی سڑکیں تعمیر کی گئیں اورشہروں کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی تعمیرومرمت بھی کی گئی۔
اسی پروگرام کا ایک منصوبہ شیخوپورہ گوجرانوالہ 43کلومیٹر چار رویہ سڑک کی تعمیر بھی تھی جس کا باقاعدہ ٹینڈر بھی پاس ہو چکا ہے مگر بدقسمتی سے اڑھائی سال سے التوا کا شکار ہے۔اس روڈ پر رہنے والے باسی کتنے گھمبیر مسائل کا شکار ہیں اس کا اندازہ آپ کو تب ہو گا جب آپ خود اس روڈ پر سفر کریں گے یہ روڈ ایک صنعتی شہر کو دوسرے صنعتی شہر سے ملاتی ہے بلکہ یہی نہیں فیصل آباد سے لے کر پنڈی اور پشاور تک کا سفر اسی روڈ کی مرہون منت ہے اور اس روڈ پر مختلف بڑے چھوٹے صنعتی اور تجارتی شہر آباد ہیں جن میں فیصل آباد ٹیکسٹائل زون،شیخوپورہ ٹیکسٹائل اینڈ ایگریکلچرل زون،گوجرانوالہ سینیٹری اور پلاسٹک انڈسٹری،وزیرآباد کٹلری انڈسٹری،گکھڑ منڈی ہوم انڈسٹری(کارپٹ اینڈ فلورمیٹ)،گجرات زرعی اینڈ الیکٹریکل انڈسٹری،لالہ موسیٰ زرعی پیداوار،فوجی چھاونی،دینہ زرعی اجناس اس طرع پشاور تک لاتعداد انڈسٹریز اور زراعت سے منسلک زونز روزانہ کی بنیاد پر یہاں سے اربوں روپوں کی تجارت ہو سکتی ہے جس سے ہمارے ملکی خزانے کو کروڑوں روپے کا فائدہ ہو سکتا ہے مگر اس روڈ سے ہمیشہ سے ہی سوتیلی ماں جیسا سلوک روا کھا گیا ہے۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی اس روڈ پر کوئی ڈیویلپمنٹ نہیں ہو سکی۔
حالانکہ یہ سارا علاقہ ہر طرح کی انڈسٹری کا حب ہے۔ہر دور حکومت میں یہاں سے ”نامور سیاستدان ”اس علاقے کی ترقی اور سہولیات کا خواب دکھا کر بھولی عوام کو بیوقوف بناتے رہے مگر” گھر کو لگ گئی آگ گھر ہی کے چراغ سے ” کے مصداق کسی بھی عوامی جماعت نے عوام کا نہ سوچا۔ آج بھی ان علاقوں کے باسی سر پر سامان کی گٹھڑی رکھ کر پیدل ، بیل گاڑی یا ٹانگے پر بیٹھ کرلمبا سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ آج بھی اگر آپ کسی سواری کے انتظار میں اس روڈ پر کھڑے ہو جائیں تو آپ کو دوپہر کی کڑکتی دھوپ میں گھنٹوںبس یا ویگن کے انتظار کا عذاب سہنا پڑتا ہے دو صنعتی شہروں کو ملانے والی اس روڈ پر سہولیات کا اتنا فقدان ہے کہ اکا دکا ہی پٹرول پمپ یا معیاری ورکشاپس نظر آئیں گی کوئی شاپنگ سینٹر یا ہسپتال نظر نہیں آئے گا۔حالانکہ یہ اتنی مصروف روڈ ہے کہ بعض دفعہ گاڑی چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس خستہ حال اور شکستہ روڈ پر ایکسیڈنٹ ہونا معمول کی بات ہے 126دیہات اور 124شہری آبادی پر مشتمل یہ علاقہ تمام جدید سہولیات سے ابھی تک محروم ہے ۔
جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ اس منصوبہ کا باقاعدہ ٹینڈر 15-06-2016ہو چکا ہے جو کہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ انارکلی لاہور آفس سے جاری ہوا۔
10-02-2017کو حبیب کنسٹرکشن کمپنی نیاز خان برادرز کو ٹینڈر ملااور 02-07-2017کو یہ معاہدہ سائن ہوا۔ اس کا کل تخمینہ لاگت PKR 5,241 ملین ہے۔ اس معاہدہ کے مطابق شیخوپورہ -گوجرانوالہ 43کلومیٹرروڈ چاررویہ ہوگی اور اس پر 08پرانے پلوں کو دوبارہ تعمیرکیا جائے گا۔02ٹول پلازہ اور08نئے پل تعمیر کیے جائیں گے۔73نئی پلیاں تعمیر ہونگی اور اس پر 15755گاڑیوں کی روزانہ آمدورفت متوقع تھی اور مجموعی طور پر شیخوپورہ گوجرانوالہ روڈ پر 126دیہات اور 124شہری آبادی نے اس روڈ سے استفادہ کرنا تھا۔مگر ستم ضریفی یہ کہ تقریبا اڑھائی سال ہونے کو آرہے ہیں اور ابھی تک ایک اینٹ تک نہیں لگ سکی۔مختلف قسم کی افواہیںاور طرح طرح کے خدشات علاقہ مکینوں کی دن اور رات کی بے چینی میں روزانہ اضافے کا باعث بنتے ہیں کبھی سننے میں آتا ہے کہ راستے میں آنے والے قبرستان جو کہ روڈ میپ کے مطابق عین اس راستے میں آتے ہیں جہاں سے روڈ گزارنے کا منصوبہ ہے لہذا جگہ حاصل کرنے کے لئے علاقہ مکینوں سے بات چیت چل رہی ہے۔جو کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی کبھی منصوبہ کی منسوخی کا سن کر لوگ پریشان ہو جاتے ہیں سو طرح طرح کی باتیں ہیں جو لوگوں کو پریشان کررہی ہیں۔
شیخوپورہ گوجرانوالہ روڈ کے مظلوم اور باہمت عوام کا حکومت پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان سے بھرپور مطالبہ ہے کہ اس منصوبہ کی تکمیل کو جلداز جلدممکن بنایا جائے کیونکہ جوں جوں منصوبہ تاخیر کا شکار ہوتا جارہا ہے اس کی لاگت بھی بڑھتی جارہی ہے جس کا نقصان سرکاری خزانے کو ہو رہا ہے اور اس منصوبہ کی تاخیر پر متعلقہ اداروں سے بازپرس کی جائے اور اگر اس میں کسی بھی قسم کی کوتاہی یا کرپشن کی صورت میں ذمہ داران کو قرارواقعی سزا دی جائے ۔اس کے علاوہ زرعی و صنعتی ترقی کے لئے اس روڈ کا جلد از جلد مکمل ہونا ملکی معیشت کے لئے انتہائی سودمند ثابت ہوگا یہاں کے باسی بھی اس ملک کے معزز شہری ہیں جو اس ملک پاکستان کی معیشت میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں لہذا تمام سہولیات سے مستفید ہونا ان کا بھی برابر کا حق ہے۔
Hamid Qazi
تحریر: حامد قاضی کالمسٹ کونسل آف پاکستان۔اسلام آباد موبائل:0331-1404007/0323-4362624 ای میل:hamidqazi47@gmail.com