تحریر : امجد اقبال ملک زندگی میں بحث اور تبادلہ خیال اگر مثبت اور مقصد کے لئے ہو تو نئے خیال جنم لیتے ہیں۔ نیتوں میں بھلائی , خدمت اور امن و محبت ہو تو کارزار حیات میں دوسروں کی راہ کے کانٹے کم کرنے پر دل بھی مائل ہوتا ہے۔ ترتیب بھی بن جاتی ہے وسائل کے ساتھ اور اللہ کی مدد بھی آ جاتی ہے.
آجکل نیٹ سے باہر کی دنیا میں بھی سیاسی , مذہبی حالات , ترقی، مشکلات کی نہ ختم ہونے والی بحثوں نے دلوں میں دوریاں پیدا کر دی ہیں. ہم نے پل , سڑکیں , پلازے , مسجدیں , مدرسے , تو بنا لئے لیکن ایک قوم نہیں بنا سکے , ہم امن محبت بھائی چارہ , احترام , برداشت , انصاف , پیدا کر سکے نہ امیر غریب کی بڑھتی خلیج کو کم کر سکے.
میڈیا کی دن دگنی رات چگنی ترقی نے ” اہم خبر ” اور ” بریکنگ نیوز ” کے نام پر انسانی طبعیت اور مزاج کو بے چینی و اضطراب کا شکار کر دیا. بات بحث اور تبادلہ خیال کی تھی. کچھ دوستوں کی محفل میں ایک دلچسب و سنجیدہ معاملہ موضوع بنا رہا. جسکا نچوڑ یہ نکلا کہ “ہر انسان اپنی زندگی کے مسائل الجھنوں پریشانیوں سے تنگ اور گھبرایا سا ہے۔
Isolation
کچھ لوگ اپنا فالتو وقت , سیر و تفریح , اپنے مشاغل یا زائد کام ،کتاب بینی ،ٹی وی ، کھیل ، میں خود کو مصروف کر لیتے ہیں. لیکن انسانی عمر کا ایک حصہ ایسا ضرور آتا ہے جب اکثریت اپنی ہمتیں , وسائل , اپنا ٹیلنٹ دوسروں کی مدد اور بہتری کیلئے استعمال کرنے کی شدید خوائش کا شکار ہو جاتے ہیں . ان میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہوتی ہے. جو کسی نہ کسی پریشانی , دکھ , الجھن اور تنہاء کا شکار ہوتے ہیں۔
ہمارا متفقہ موقف اس لمبی بحث کے بعد یہ بنا کہ ” کوئی ایسا ادارہ , ایسا سینٹر , ایسا پلیٹ فارم ہو , جہاں کچھ وقت , اچھے , پرسکون , پر امن , باعزت ماحول میں , اس قسم کے لوگ خاموشی سے جا کر اپنی والنٹیر خدمات دیا کریں. اپنی دلی تسکین بھی , دوسروں کا بھلا بھی , اداسی پریشانی اور اکیلے پن کا علاج بھی ” ایسے ہی پریشان حال لوگ , زیارتوں درباروں , کی خاک چھانتے ہیں. بیٹھکوں , حجروں , سیاست , اور مسائل کی نہ ختم ہونے والی بحثوں میں الجھے رہتے ہیں. میں ذاتی طور پر ایسی بہت سی جگہوں پر سکوں کو تلاش میں گیا. لیکن کچھ بہت تکلیف دہ تجربے لے کر مایوس لوٹا , کہیں مذہبی منافرت کی بو آئی , کہیں غریبوں امیروں کے لنگر اور برتاؤ میں بہت فرق , کہیں پیسے کی لالچ , کہیں نفرتوں بھری سیاست , کہیں لباس , حلیے , گاڑی , زمینوں کے مقابلے , وہ غربت اور محبت نظر نہیں آئی جو خلفائے راشدین اور صحابہ کا خاصا تھا. ہمارے پیارے نبیۖ , خود غلام کو ساری رات چکی پیس کر دیتے , یہودی کی بیٹی کے سر پر چادر دیتے , اپنی مخالف کافر عورت کو , ہجرت میں مدد کرتے , کاندھے مبارک پر سامان ڈھوتے ,ہمارے خلفائے راشدین گھروں میں مجبور عورتوں کو پانی بھر کے دیتے , صفائی کر کے دیتے , اپنے مبارک ہاتھوں سے , ہم کس باغ کی مولی ہیں.
Homeless Old People
سب دوستوں کا ایک ہی خیال ہے کوئی ایسا سینٹر بنایا جاے , جو یتیم , غریب , لاوارث کی پناہ گاہ بھی ہو , جہاں صرف خدمت کی غرض , اللہ کی خوشنودی کے لئے وقت دیا جاے , جہاں انسانوں میں کوئی تفریق و تمیز نہ ہو , جہاں کھانا , بیٹھنا , ایک یتیم بچے اور ایک وی آئی پی کے لئے ایک جیسا ہو. جہاں بے گھر بوڑھے بوڑھیوں کے لئے , امن محبت سکوں ہو.
ایسے لوگ جو اپنا قیمتی وقت , خدمت اور سکوں میں گزرنا چاہتے ہیں. انکے لئے دروازرے کھلے ہوں. یتیم و نادار بچوں , بے گھر , لاوارث بوڑھوں کے برتن جوتیاں مجھ جیسے سوشل ورک کے دعویدار صاف کر رہے ہوں. چند گھڑیوں کی خدمت کسی دکھی دل کو صدیوں کا سکوں بخش رہی ہو. امن , محبت , برابری اور اخلاص کی فضا میں ایک ایسی پناہ گاہ جہاں ہم اپنی الجھنوں , اکیلے پن , آخرت کی فکر , اپنی صلاحیتوں کو کسی مقصد پر لگا کر سکون و اطمینان کی دولت سے سرشار ہوں. اللہ ہماری مدد فرمائے. آمین