تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان ہندوستان کے مسلم بہادر جرنیلوں میں سے ایک بہادر مسلم جرنیل شیر شاہ سوری بھی گزرا ہے۔ بقول اُس کے اُسے بادشاہت اُس وقت ملی جب اُس کی زندگی کی شام ہو رہی تھی۔ گو کہ اسے ہندوستان پر صرف پانچ سال حکومت کرنے کا موقعہ ملا مگر اس پانچ سالہ دور حکومت میں اس نے دہلی پر حکمرانی کے ساتھ ساتھ رفائہ عامہ کے کئے کام بھی کیے۔ اس کے سب سے مشہور رفائہ عامہ کے کاموں میں پشاور سے کلکتہ تک سڑک اعظم( گرینڈ ٹرنک روڈ،جی ٹی روڈ) ہے۔ یہ پاک و ہند میں اپنی مثال آپ ہے۔اتنے قلیل دور حکمرانی میں اتنی بڑی سڑک تعمیرکرنا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ اس سڑک کے ہر کوس پر ایک سرائے، ایک کنواں اور ایک پختہ مسجد ہوتی تھی جس میں امام اور موذن تعینات تھا۔ جن کو شاہی خزانے سے وظیفے ملتے تھے۔ مسافروں کے آرام کے لیے سرائوں کے دو دروازے ہوتے تھے ایک مسلمانوں اور دوسرا ہندوئوں کے لئے مخصوص تھے۔
پینے کے پانی کے لیے سڑک کے کنارے باولیاں( کنویں) تعمیر کیے گیے جس سے مسافر پینے کا پانی حاصل کرتے تھے۔ ان میں کچھ باولیاں ا ب بھی جی ٹی روڈ کے کنارے پر موجود ہیں۔ان باولیوں میں نیچے اُتر کر پانی حاصل کرنے کے لیے سیڑیاں بنائی تھی۔سڑک کے دونوں کناروں پر پھل دار درخت لگائے گئے۔ شیرشاہ سوری کے رفائہ عامہ کے کارناموں میں سے ایک اور کارنامہ ڈاک کا نظام ہے۔ ڈاک کا نظام اس طرح رائج کیا گیا کہ سڑک کے کنارے چوکیاں بنائی گئی تھی۔ تیز رفتار گھوڑے پر سوار ڈاکیا، ڈاک کا تھیلاایک چوکی سے دوسری چوکی تک پہنچاتا تھا اگلی چوکی پر تیار گھڑا گھوڑا اس ڈاک کے تھیلے کو اگلے چوکی تک پہنچاتا تھا۔اس طرح ڈاک آخری منزل تک قلیل وقت میں پہنچ جاتی تھی۔ شیر شاہ سوری کا اقتدار میں آنے کی روداد کچھ اس طرح ہے۔ اس کا نام جو اس کے والدین نے رکھا تھا وہ فریدخان تھا۔شیرشاہ ١٤٨٦ء میں پیدا ہوا اور١٥٤٥ء میں حادثاتی طور پرفوت ہوا۔بہادر سپاہی ہونے کی وجہ سے اس نے مغل بادشاہ ظہرالدین بابر تک رسائی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد پٹنہ کے حاکم کی فوج میںملازم ہو گیا اور جرنل کے عہدے تک پہنچ گیا۔
پٹنہ کے حاکم کی موت کے بعد اس کا جانشین بنا ۔پھر پٹنہ کے حاکم کی بیوی کا انتقال ہوا تو پٹنہ کا حاکم بن گیا۔مغل بادشاہ بابر شراب کا رسیا تھا۔ حکومت کے تمام انتظامات اس کے وزیر چلاتے تھے جور شوت غور تھے۔ اس کی حکومت کمزور ہو رہی تھی کہ اس کا بیٹا نصیر الدین ہمایوں تخت پر بیٹھا ۔شیر شاہ سوری نے اس سے لڑ کر مغل بادشاہت کا خاتمہ کر کے دہلی کا حکمران بن گیا۔ ہمایوں شکست کے بعد سندھ کے راستے ایران بھاگ گیا۔ شیر شاہ سوری نے پنجاب میں سلطان پور کے مقام پر مغلوں کو فوجی کمک پہنچانے والے پٹھوار کے سلطان سارنگ اور گکھڑوں کے ساتھ جنگ کی ۔ان کو شکست دینے کے بعد روات کے مقام پر فوجی چوکی بنائی۔گکھڑوں، جن پر شہاب الدین غوری کو گائوں دھمیک، سوہاوہ جہلم کے مقام پر عشاء کی نماز ادا کرتے ہوئے شہید کرنے کا الزام ہے۔ممکنہ طور پر ہمایوں کی ایران سے واپسی اور مغل سلطنت حاصل کرنے کی کوشش میں مغلوں کے ساتھ پرانے تعلوقات اور جنگ جو علاقے میں رہنے والے گکھڑوں کی سرکوبی اور اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کی غرض اور اس خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے شیر شاہ سوری نے جہلم کے قریب دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان ناقابل تسغیر قلعہ تعمیر کرنے کے لیے اپنے وزیر تعمیرات شاہو سلطانی کو تعینات کیا۔
Rohtas
شاہو سلطانی نے جی ٹی روڈ پر واقع منڈی شہر جی ٹی روڈ جس کو اب روہتاس کے نام سے مو سوم کیا جاتا ہے نالہ کھان کے کنارے جگہ منتخب کر کے پٹھوار کے گکھڑوں کی سرکوبی کے لیے قلعہ روہتاس تعمیر کیا۔ اس کی تعمیر میں بیک وقت تین لاکھ مزدروں نے حصہ لیا۔اس کی تعمیر پر اس وقت اخراجات ایک ارب اکیس کروڑ پچھتر ہزار روپے ہوئے۔ روات قلعہ آٹھ سال کی مدت میں تعمیر ہوا۔قلعے کے ابتدائی حصہ میں شاہی مسجد،شاہی محلات، مان سنگھ محل، رانی محل، لنگر خوانی،پھانسی خانہ اور١٢ دروازے بنائے گئے۔تعمیر شروع کرنے کے وقت اسکارقبہ ١٣٠ ایکڑ زمین رقبہ پر محیط تھا۔ بعد میں شیر شاہ کے حکم سے اس کے رقبے میں توسیع کر دی گئی اور قلعہ کا کل رقبہ ٣٠٠ ایکڑپر محیط کر دیاگیا۔قلعہ میں تین پوشیدہ دروازے بھی بنائے گئے۔ شیشی دروازے کے اوپر بنائے گئے برج میں اندرونی حصہ پر کلمہ شہادت اور آیات کرسی تحریر ہے۔ دوسرے دروازوں کے اندر درود شریف ،اللہ اور رسولۖ کے باری باری نام تحریر ہیںجو آج بھی شیر شاہ سوری کی اسلام پسندی کا نادر نمونہ پیش کر رہی ہے۔
قلعے کی وسیع بیرونی دیوار کے اندرون حصہ پر چلنے کے لیے راستہ بنایا گیا ہے۔قلعہ کے اندر ایک بڑی باولی(کنواں) بنائی گئی ہے۔ یہ ٢٧٠ فٹ گہری اور چارمحرابی چوکھٹوں کے نیچے اُترنے کے لیے١٥٠ سیڑھیاں کے دو رویہ بلند دیواریں ہیں۔ نیچے اترنے کے لیے ہر پندرہ سیڑیوںکے بعد ایک وسیع سیڑھی بنائی گئی ہے تاکہ بندہ سانس لے سکے۔کنویں کا محیط ٣٥ گز ہے۔گہرائی ٣٠٠ فٹ ہے۔ باولی میں آج تک پانی موجود ہے مگر استعمال نہیں کیا جاتا۔اس باولی کو دور دور سے لوگ دیکھنے کے لیے اب بھی آتے ہیں۔جب شیر شاہ سوری کا انتقال ہواتو اس کے بعد اس بیٹے سلیم شاہ،فیروز شاہ عادل شاہ ، ابراھیم سوری اور سکندر سوری تقریباً دس سال حکمران رہے۔ اس بعد شیر شاہ سوری کے خدشات کے عین مطابق گکھڑ سردارا دم خان نے ہمایوں کو ہندوستان آنے کی دعوت دی جس پر ہمایوں ایران کی فوج کی مدد سے پہلے پنجاب اور اس کے بعد ہندوستان پر پھر قابض ہو گیا۔ مغلوں کے زوال کے بعد اس قلعہ پر ١٧٦٦ء میں سکھوں نے قبضہ کر لیا۔رنجیت سنگھ اس قلعہ میں کافی عرصہ قیام پذیر رہا۔سکھ شاہی محلات کے اندر سے قیمتی پتھروں کو اکھاڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ہمایوں ہندوستان میں افراتفری کا عالم دیکھ کر پشاور کے راستے ایران کی مدد سے جب پنجاب پر حملہ آور ہو تھا تواسوقت تاتار خان رہتاس قلعہ کا گورنر تھا۔ اس کے قائم مقائم گورنر آدم خان قلعہ روہتاس ہمایوں کے حولے کرنے کے لیے روات تک آگے بڑھ کر قلعہ ہمایوں کے حوالے کر دیا۔ ہمایوں رہتاس کی طرف بڑھا۔
جب ترکی کی پہاڑیوں سے اتر رہا تھا۔ اس نے دور سے زمین کی بلندیوں پر انڈے کی ماند سفید براق قلعہ کھڑا پایا اور کہا کہ یہ کیا ہے۔جواب دیا گیا یہ شیر شاہ سوری کا قلعہ روہتاس ہے۔ حکم دیا اسے فوراً گرا دیا جائے اور زمین کے برابر کر دیا جائے۔ جب ہمایوں روہتاس آیا تو بیرام خان نے عرض کیا بادشاہ سلامت اب یہ سارا علاقہ آپ کے زیر سایہ ہے۔اس کو زمین بوس کرنے میں وقت لگے گا۔آپ نے بڑے کارنامے سرانجام دینے ہیں اور دہلی پہنچنا ہے ۔ لہٰذا آپ کا حکم بجا کر اس کے سوہل دروازے کے تین کنگر گرا دیے جاتے ہیں ہمایوں کو یہ تجویز پسند آئی۔ توپ سے تین کنگرے گرا دیے گئے۔ جن کو بعدانگریز سرکار نے دوربارہ مکمل کیا۔ صاحبو١ پٹھوار کا یہ علاقہ فوجی جوان پیدا کرنے میں ہمیشہ زرخیز رہا ہے۔ مغلوں، انگریزوں اور اب بھی پاک فوج میں پٹھوار کے بہادر جنگ جو مشہور ہیں۔ ہندوستان کے قلعے مسلمان حکمرانوں کی شان و شوکت کے مظہر ہیں۔ راقم نے شیرشاہ سوری کا بنایا ہواروہتاس قلعہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ، ١٩٨٧ء میں بھارت جانے کا اتفاق ہوا۔دہلی میں مغل بادشاہ کے بنائے ہوئے لال قلعے کودیکھنے کا موقعہ ملا۔سرخ پتھر سے تعمیر کیا گیا لال قلعہ اب بھی اپنی شان شوکت کے ساتھ برقرار ہے۔
قلعے کی اونچی دیواروں کے ارد گردکئی فٹ چھوڑی اور کافی گہری پانی کی کھائی جس میں پانی موجود ہوتاتھا۔ نہ گھڑ سواروں کوآگے بڑھنے کی ہمت تھی اور نہ ہی ہاتھوں سے چلائے گئے تیر اتنی اونچی دیواروں تک پہنچ سکتے تھے۔ قلعے کی دیواروں پر بارود کے گولے مار کر قلعے کی دیواروں کو گہرایا جا سکتا تھا۔ اب تو لڑائی میں ٹینک، توپیں، راکٹ لائنچر،میزائل اور نہ جانے کون کون سا جدید اسلح ایجادہوگیا ہے کہ ان قلعوں میں کوئی بھی فوج پناہ نہیں لے سکتی۔بہر حال پاک و ہند میں پھیلے یہ قلعے اپنے دور کی شان وشوکت کے مظہر تھے۔ جس میں شیر شاہ سوری بہادر مسلم جرنیل کا تعمیر کردہ روہتاس کا قلعہ بھی شامل ہے۔ اللہ ہمارے پاکستان کو مستحکم کرے تاکہ ہم اپنے ازلی دشمن بھارت کے شر سے محفوظ رہیں آمین۔