تحریر: سید انور محمود بھارت اور پاکستان کے تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، اتار چڑھاو آتے رہے لیکن ایسی انتہا پسندی کی طرف نہیں گئے جیسے اب ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے عوام دونوں ملکوں کے کھلاڑیوں کو آمنے سامنے مقابلہ کرتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، چاہے وہ مقابلہ کبڈی کا ہو، اسنوکریا ہاکی کا ہو یا پھر کرکٹ کا، مقابلے کے دوران دونوں طرف کے عوام جذباتی ہوجاتے ہیں۔ پاک انڈیا کرکٹ سیریز محض ایک سیریز نہیں بلکہ دوقوموں کے درمیان ایک جذباتی جنگ ہوتی ہے۔ میچ ون ڈے کا ہویا ٹی ٹونٹی کا،سڑکیں خالی اور بازار سونے پڑ جاتے ہیں ہرکوئی ٹیلی ویژن کے سامنے براجمان ہوکر اپنے اپنے ملک کی ٹیم کی فتح کا خواہشمند ہوتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی بڑے ٹورنامنٹ کے فائنل میں فتح ہو یا شکست لیکن سب سے زیادہ خوشی یا دکھ انڈیا پاک میچ کے نتیجہ پر ہوتا ہے۔ 1999ء میں سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے، انہوں نے لاہورکا تاریخی دورہ کیا۔ واجپائی نے پندرہ سال کے طویل عرصے کے بعد پاکستانی ٹیم کو بھارت آنے کی دعوت دی اور 2005ء اور 2006ء کے دوروں کا انعقادکیا گیا۔ 13 جنوری تا 19فروری 2009ء کو بھارتی ٹیم کے دورہ پاکستان کی تمام تفصیلات طے پاچکی تھیں کہ 2008ء میں ممبئی میں دہشت گردی نے ان کوششوں پر پانی پھیر دیا اور یہ سیریز منسوخ کردی گئی۔
ادھر بدقسمتی نے پاکستان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ بھارتی ٹیم کے دورے کی تنسیخ کے فوراً بعد 2009ء میں ہی لاہور میں دہشت گردوں نے سری لنکا کی ٹیم پر جان لیوا حملہ کردیا۔ پاکستانی پولیس نے دہشت گردوں سے کئی گھنٹوں تک مقابلہ کیا، اس مقابلے میں پاکستانی پولیس کے علاوہ پاکستانی شہری بھی شہید ہوئے۔ سری لنکن ٹیم بحفاظت اپنے وطن واپس ہوئی تو ساتھ ہی کرکٹ کی ساری رونقیں بھی لے گئی۔ پاکستان پر عالمی کھیلوں کے دروازے بندہوگئے اور اس دلخراش واقعہ کے بعد کسی بھی کرکٹ ٹیم نے پاکستان آنے کی حامی نہ بھری۔ پاکستان میں کرکٹ کے میدان اجڑ گئے۔ پھر چھ سال دو ماہ کے طویل انتظار کے بعد پاکستان اور زمبابوے کے درمیان 22 مئی 2015ء کو پہلا ٹی ٹونٹی کھیلا گیا۔
Zimbabwe Cricket Team
زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کے آنے سے پہلے چھ سال پاکستان کرکٹ کی دنیا میں تنہائی کا شکار رہا ہے۔ گورئے تو کیا آتےپاکستان کے پڑوسی ملک بھارت جس پر یہ الزام ہے کہ سری لنکا کی ٹیم پر حملے میں بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را’ کا ہاتھ ہے، اُسنے اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے صاف انکار کردیا، مسلم ملک بنگلہ دیش حکومت اور کرکٹ بورڈ نے وعدئے کے باوجود اپنی ٹیم کو پاکستان نہیں بھیجا۔2008ء کے بعد پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان مقابلے غیرجانبدار مقام پر ہوئے جن میں ورلڈ کپ اور ٹی ٹونٹی کے میچز شامل ہیں۔ تاہم موہالی میں ورلڈ کپ2011ء کا سیمی فائنل میچ پاک بھارت ٹیموں کے مابین بھارت کی سرزمین پر کھیلا جانے والا واحد میچ ہے۔
ممبئی دہشت گردی کیس کی تحقیقات کے بعد بھارت کو اپنی سوچ بدلنا پڑی اس لیے کہ پاکستان جو خود دہشت گردی کا شکار ہے بھارت میں ایسی ہولناک کارروائی کیسے کروا سکتا تھا۔ 2012ء میں کئی مہینوں کی جدوجہد اور طویل مذاکرات کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ نے باقاعدہ پاکستان کو محدود اوورز کی سیریز کھیلنے کی دعوت دی جیسے بخوشی قبول کرلیا گیا۔ دونوں ممالک کے درمیان اس برف کو پگھلانے میں پی سی بی کے سابق چیئرمین ذکاء اشرف کا کردار تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں ممالک کے کروڑوں عوام اس فیصلے پر بے انتہا خوش تھے۔ پاکستان اور بھارت کھیلوں کے روایتی حریف ہیں۔
فٹ بال کے بعد سب سے زیادہ کھیلی جانے والی کرکٹ جوکہ جنوبی ایشیا میں پسندیدگی کے اعلیٰ مقام کو چھوتی ہے دونوں ممالک کے درمیان ڈیڈ لاک کو توڑنے میں ہمیشہ کامیاب رہی ہے۔ سابق پاکستانی صدر ضیاءالحق، پرویز مشرف اور سابق پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھی کرکٹ میچ دیکھنے بھارت گے تھے۔ 13مارچ 2004ء کو کراچی میں چودہ سال کے بعدبھارت پاکستان میں کھیلا تھا، اس تاریخی میچ کو دیکھنے بھارت سے 100 مہمان آئے تھے جن میں کانگریس کی صدرسونیا گاندھی کی بیٹی پریانکا گاندھی، بیٹے راہول گاندھی اور اُن کے داماد رابرٹ وڈرہ بھی شامل تھے، حکومت پاکستان نے اُن کو سرکاری مہمان کا درجہ دیا تھا۔
Pakistan Cricket Board
چھبیس جون 2014ء کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق پاکستان اور بھارتی کرکٹ ٹیم کے درمیان کرکٹ سیریز کا تحریری معاہدہ طے پایا۔ جس کے تحت 2015ء سے 2023ء کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان 6 سیریز کھیلی جانی تھیں، جن میں سے چار پاکستان کے وینیو یعنی دبئی میں جبکہ دو بھارت میں ہونی تھیں ۔ بقول پی سی بی ایگزیکٹیو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی کے اگر یہ چار سیریز ہوتی تو پاکستان کو اربوں روپے کا فائدہ ہوتا ۔پی سی بی کا خرچ تین سے چار ارب ہوتا ہے۔ اس لئے ایک طرف انٹر نیشنل اور اگر پاکستان کے بھارت کے ساتھ میچ ہوں تو بہت زیادہ ریٹنگز ملتی ہیں ۔ نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ پہلی سیریز اس سال دسمبر میں ہونا تھی لیکن دسمبر قریب آنے کے باوجود بی سی سی آئی کی طرف سے نہ ہاں ہوئی نہ ہی نہ۔
کچھ دن قبل شہریار خان نے مجھے کہا کہ ممبئی میں بی سی سی آئی کے ساتھ میٹنگ کرنی ہے ۔ ہم پیر 19 اکتوبرکو ممبئی پہنچے، بی سی سی آئی کی بلڈنگ میں دہشتگردی کا کوئی خطرہ نہیں اس لئے دو پہر ئےدار پہرئے کےلیے کھڑے ہیں۔ نجم سیٹھی نے بتایا کہ بی سی سی آئی کے ساتھ ہماری میٹنگ گیارہ بجے ہونا تھی ۔ہمیں ٹی وی کے ذریعے پتہ چلا کہ شیو سینا کے کئی لوگ بی سی سی آئی کے دفتر کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد پہر ئےداروں نے دفتر کے دروازے بھی کھول دئیے، انتہا پسند ہندو تنظیم شیو سینا کے کارکن نعرے لگاتے ہوئے بی سی سی آئی ہیڈکوارٹر میں اندرداخل ہوئے، مشتعل افراد نے شاشانک منوہارکا گھیراؤ کرتے ہوئے چیئرمین پی سی بی کے واپس جانے کا مطالبہ کیا اوراس دوران پاکستان مخالف نعرے بھی لگائے گئے۔
نجم سیٹھی نے بتایا کہ ہم ابھی ہوٹل میں ہی تھے تو ہمیں کہا گیا کہ ابھی میٹنگ میں تاخیر ہے اس لئے انتظار کریں۔ تھوڑی دیر بعد میٹنگ ملتوی ہونے کی اطلاع آگئی۔ نجم سیٹھی نے تسلیم کیا کہ شیوسینا کے غنڈوں کے بی سی سی آئی آفس پر حملے کے بعد بھارتی حکام نے ملاقات ملتوی کرنے کا براہ راست اشارہ دے دیا تھا۔بعد کی اطلاع ہیں کہ شہریار خان اور ششانک منوہر کی بیگمات کے زریعے پیغام رسانی کی گئی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، اب شہر یار خان بھی تقریباً مایوس ہوچکے ہیں۔
Zaheer Abbas
آئی سی سی کے صدر ظہیر عباس نے اس موقعہ پر کہا کہ شدت پسند تنظیم شیو سینا کی غنڈہ گردی اور بی سی سی آئی کے ہیڈ آفس پر حملے کی وجہ سے اگلے سال ورلڈ ٹی ٹونٹی متاثر ہو سکتا ہے۔ اگر بھارت میں اتنی زیادہ آگ لگی ہوئی ہے اور لوگ پاکستان کے ساتھ سیریز کے اتنے مخالف ہیں تو پھر ٹی ٹونٹی کے ورلڈ کپ کے انعقاد میں مشکل ہوسکتی ہے ۔ ظہیر عباس نے بی سی سی آئی کے صدر دفتر پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی کھلاڑی اپنی جانوں کو خطرہ لاحق ہونے کی وجہ سے ورلڈ ٹی ٹونٹی کیلئے بھارت جانے سے انکار کر سکتے ہیں۔ لیکن بطور آئی سی سی صدر میں چاہتا ہوں کہ کرکٹ دنیا بھر میں پھیلے۔
بھارتی حکمراں جماعت بی جے پی کی دہائیوں سے فطری اور نظریاتی اتحادی جماعت شیو سینا نے پاکستان کے خلاف پہلی مرتبہ غنڈہ گردی نہیں کی ہے ، اس سے پہلے بھی 1991ء میں شیوسینا نے پاک بھارت کرکٹ سیریز کے خلاف احتجاجاً وانگھیڈاسٹیڈیم کی پچ کھود ڈالی۔ دسمبر2003ء میں شیوسینا کے کارکنوں نے آگرہ اسٹیڈیم کی پچ کھود ڈالی جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ ہونے والا تھا۔ اپریل2005ء میں شیوسیناکے اسٹوڈنٹس ونگ نے نئی دہلی میں پاک بھارت میچ روکنے کی کوشش کی۔ بھارت اور پاکستان میں اکثر حلقے شیو سینا کی طرف سے اس ” غنڈہ گردی ” کو خاصی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اس کے خلاف خاطر خواہ کارروائی نہ کرنے پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ شیو سینا نے آئی سی سی کے پینل میں شامل پاکستانی امپائر علیم ڈار کو بھی بھارت سے چلے جانے کی دھمکی دی جو کہ بھارت اور جنوبی افریقہ کے ایک روزہ میچ کی امپائرنگ کے فرائض انجام دینے کے لیے بھارت میں تھے۔ سابق پاکستانی کرکٹر وسیم اکرم اور شعیب اختر نےبھی شیو سینا کی حالیہ غنڈہ گردی کے بعد بھارت میں قیام سے انکار کردیا ۔ یہ دونوں کرکٹ مبصر کے طور پر وہاں گئے ہوئے تھے۔
گذشتہ سال دسمبر 2014ء میں ہاکی چیمپئنز ٹرافی کے موقعہ پرسیمی فائنل میں بھارت کا پاکستان سے شکست ہضم کرنا متصب بھارتی میڈیا کےلیے بھی ناممکن تھا۔ پاکستانی کوچ شہناز شیخ کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا نے انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے ہیں۔قبل ازیں 1982ء میں پاکستان کی ہاکی ٹیم نے بھارت کے خلاف نئی دہلی میں سات گول کئے تھے یہ وہ زمانہ تھا جب بال ٹھاکرے زندہ تھا اور اس نے پاکستان کی ٹیم کے بھارت میں کھیلنے کے خلاف سخت مزاحمت شروع کررکھی تھی۔ پاکستان میں کرکٹ کے حلقے اپنے کرکٹ بورڈ کو بھی یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ آئی سی سی کے تحت ہونے والے سیریز کے معاہدے پر اس موقع پر بھارتی بورڈ سے بات چیت کے لیے پاکستانی بورڈ کے عہدیداروں کا بھارت جانا غیرضروری تھا۔
Shiv Sena
یتیم سیاستدان عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ پی سی بی کے وفد کے ساتھ شِیو سینا کی طرف سے کیے جانے والے سلوک کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔ شِیو سینا کو چاہیے کہ شہریارخان کا منہ کالا کریں اور جب شہریار خان واہگہ بارڈر پر آئیں تو وہاں پر بھی اُن کا منہ کالا کیا جانا چاہیے(اب سمجھ میں آیا کہ ایاز صادق قومی اسمبلی میں کیوں ہمیشہ اسکا مائیک بند کردیا کرتے ہیں)۔ شاید شیخ رشیداپنی حکومت مخالفت میں یہ بھول گے ہیں کہ یہ وہ ہی شہر یار خان ہیں جن کی انتھک محنت اور سفارتی کوششوں کی وجہ سے ہی چھ سال دو ماہ کے طویل انتظار کے بعد پاکستان اور زمبابوے کے درمیان 22 مئی 2015ء کو لاہور میں پہلا ٹی ٹونٹی کھیلا گیا اور پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہوئی۔
پی سی بی ایگزیکٹیو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ “بھارت سے 6 سیریز کھیلنے کا معاہدہ ہوا تھا، کرکٹ اور سیاست کو ساتھ ساتھ نہیں چلنا چائیے، ہمارے ہاں کچھ ایسے لوگ ہیں جو پاکستان کی بہتری کیلئے کام کرنے والوں پر تنقید کرتے ہیں ۔اس ساری صورتحال میں پی سی بی پر تنقید کرنے کے بجائے ہمیں دنیا کو دکھانا چایئے کہ یہ ہے شائننگ انڈیا ،یہ ہے اُن کا مسلم مخالف اور پاکستان مخالف رویہ”۔ بھارت میں انتہا پسند اس سے قبل بھی پاکستانی کھلاڑیوں کے علاوہ فنکاروں کے خلاف بھی مظاہرے کر کے انھیں بھارت سے چلے جانے کےلیےدباؤ ڈالتے رہےہیں۔ مبصرین اسے پاکستان کےلیے نہیں بلکہ بھارت کے تشخص کے لیے انتہائی مضر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھارتی حکومت کو اس ضمن میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے اور اپنے ملک سے شیوسینا کی دہشت گردی کو ختم کرنا چاہیے ورنہ مودی سرکار کا شائننگ انڈیا دہشت گرد انڈیا کہلائے گا اور شاید پھر دنیا کہے گی شائننگ انڈیا میں کرکٹ نہیں کھیلی جاتی۔ عام پاکستانیوں کا شیوسینا کی غنڈا گردی کے خلاف مظاہرہ