زیدی کا شعر آج ہر ایک کی سانسوں میں بسا ہواہے۔ کس کے ہاتھوں پہ اپنا لہو تلاش کروں!تمام شہر نے پہنے ہیں دستانے قاتل قتل کر جاتے ہیں اور انہیں کوئی پکڑنے والاہی نہیں ہے۔ 1985 کے بعد سے کراچی خون میں نہا رہا ہے۔اس سے قبل اگر ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں تو ایک آمر جنرل کے بیٹے نے سب سے پہلے اسے اپنے باپ کی جھوٹی فتح اور قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ جنہیں قوم مادرِ ملت کے مقدس لقب سے یاد کرتی ہے، کی جھوٹی شکست کے بعد کراچی کے شہریوں کو خون میں نہلانے کے بعد پورے مہینے شہر میں دہشت کا راج برقرار رکھا ہوا تھا۔ اس دور میں پورے کراچی میں لوگوں کے پاس ڈنڈوں اور سبزی کاٹنے کے چاقووں کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں ہوا کرتے تھے۔ لوگ اس دہشت گرد کے ٹولے سے خائف تھے اور راتوں کو بجلی کے کھمبے بجا بجاکر ایک دوسرے کو بتاتے تھے کہ گوہر ایوب اور اس کے غنڈے آرہے ہیں اپنی اپنی حفاظت کے انتظامات سے غافل نہ رہنا۔ اس طرح اس پر امن شہر میں آگ اور خون گولی اور گالی کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔
جب پورا پاکستان سو رہا ہوتا تھا توشہر کراچی راتوں کو جا رہا ہوتا تھا، اور اس کی رونقیں کبھی ماندنہ پڑتی تھیں۔ یہ پورے پاکستان کا معاشی اور معاشرتی پالنہار تھا۔ کراچی کے دشمنوں کو اس کی رونقیں ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں۔ انہی دشمنان کراچی نے یہ تہیہ کرلیا تھا کہ کراچی اور اسکی روشنیوں کو ہر صورت میں ماند کر کے دم لیں گے۔ اسی دوران ملک میں ایک اور ڈنڈا بردار قوت نے جمہوریت پر شب خون مارکر اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ اب حکومت اور مخالف سیاسی قوت میں ٹھن چکی تھی۔ اس ٹسل کے نتیجے میں طالع آزمائوں نے پاکستان اور سندھ کا بہتریں سیاسی ذہن چھین لیا۔ ان فوجی حکمرانوں نے اپنی مخالف قوت کے خاتمے کے لئے کراچی کی محرومیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے والے لوگوں کو استعمال کیا تاکہ مخالف پارٹی کا بھی خاتمہ کیا جا سکے، اور پھر کراچی ہمیشہ کیلئے دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ گذشتہ 27، سالوں سے کراچی شعلوں کی لپیٹ میں ہے اور کوئی اس آگ کو بجھانا نہیں چاہتا ہے۔
Pakistan
وہ کراچی جس کے علم و حکمت کے پاکستان ہی کیا ساری دنیا میں ڈنکے بجتے تھے۔ کسی بھی میدان میں کوئی کراچی والوں کو شکست نہیں دے سکتا تھا۔ اس ناقابلِ شکست شہرِ بے امان کو ان تمام قوتوں نے مل کربانجھ کر دیا ہے۔ اب کراچی بھوتوں کا شہر بنانے کی کوششیں یہ سب قوتیں مل کر کر رہی ہیں۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی، کی زمین کی طرح کراچی کی زمین بھی آج بنجر، علم و حکمت اور دانش کے معاملے میں ہو چکی ہے۔ جس پر اب کوئی فصل بوئی ہی نہیں جا سکتی ہے۔ ہاں دہشت گردی کی کاشت کے لئے اب یہ شہر خاصہ پھل دینے لگا ہے۔ پانچ ہزار سے دس ہزار، دس ہزار سے ایک لاکھ اور اب قریباََ دیڑھ لاکھ کے قریب کراچی میں جدید ترین اسلحہ بردار ہر طبقہء فکر سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد قاتل اور انسان نما حیوان اس شہر کو یرغمال بنانے کی جدوجہد میں دن رات آگ اور خون کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ ہر جانب گولی کا راج پاٹ ہے۔ ان کے علاوہ جس کے پاس گولی نہیں وہ گالی سے ہی کام چلا لیتا ہے….فوجی اور سیاسی آمریتوں نے اس شہر کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی ہے۔ انہوں نے شہر میں دہشت گردی کی خوب خوب آبیاری کر کے وہ فصلیں بو دی ہیں جنہیں کاٹتے کاٹتے نسلیں ختم ہو سکتی ہیں۔ جس کی کئی فصلیں پیدا بھی ہوچکی ہیں۔ پرویز مشرف ایسے فوجی آمر نے اس کھیل میں سب سے زیادہ بھیانک کردار ادا کیا تھا ۔اس نے اس پر امن شہر کو جدید اسلحے کا ڈھیر بنا دیا۔
نئی جمہوری حکومت نے پاکستان اور خاص طور پر کراچی سے دہشت گردی کے خاتمے کا بیڑا اٹھایا تو دہشت گردوں میں سراسیمگی پیدا ہو گئی۔ جب کراچی آپریشن شروع ہوا تو اس کے بعد کراچی میں تیس سے زیادہ بم بلاسٹ اور ستر سے زیادہ پولس اہلکار مار دیئے گئے ہیں۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ پولس کو خوفذدہ کرنے کے لئے پولس کے ایک نڈر ڈی ایس پی چوہدری اسلم کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد کئی دہشت گرد بھی ہچکیاں لے لے کر کے آنسو بہانے لگے۔ چوہدری اسلم کی شہادت کے بعد ان دہشت گردوں نے روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی پولس اہلکاروں، علماء اور عام شہریوں کی ٹارگیٹیڈ کلنگ کو تیز کر کے پولس کے حوصلے پست کرنے کی نا کام کوششیں تیز کر دیں ہیں۔ ایک ایک دن میں آپریشن شروع کئے جانے کے بعد بھی بیس بیس بے گناہوں کو شہید کر نے کا بظاہرنہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ جب سے آپریشن شروع ہوا ہے گویا دہشت گردی کا نیٹ ورک بہت منظم اور مضبوط ہو گیا ہے۔
سندھ اور خاص طور پر کراچی کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کنٹرول کر نے کی پرانی ڈگر پر حکومتیں چل رہی ہیں۔ 25،جنوری 2014 کوہفتے کی شب کو کراچی کے علاقے لانڈھی نمبر 6، پر7 پولس اہلکاروں کی دہشت گردوں نے چشمِ زدن میں جان لے لی اور سکون کے ساتھ موٹر سائکلوں پر فرار ہو گئے۔ یہ بدلہ ان تارگیٹ کلر کی گرفتای کا تھا جنکو عباس ٹائون کے قریب سے سی آئی ڈی پولس نے گرفتار کیا تھا۔ جن کا تعلق شیعہ دشت گرد تنظیم سپاہ محمد سے بتایا گیا ہے۔ جو شاہراہ فیصل پر تین علماء کے قتل اور اہلِ سنت و الجماعت کے رہنما مولانا اورنگ زیب فاروقی پر ہونے والے حملوں میں بھی ملوث ہیں ارر 60 افراد کے قاتل بتائے جاتے ہیں۔ پولس نے علمائے کرام کی ٹاگیٹیڈ کلنگ کے بعد بنائے گئے فٹیج کے ذریعے شناخت کر کے ان دہشت گردوں کو گرفتا کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ان دہشت گردوں کوپڑوسی اسلامی ملک غالباَ ایرانَ میں کئی باردہشت گردی کی تربیت فراہم کی گئی تھی۔ بعض ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ان دہشت گردوں کا تعلق ایک سیاسی جماعت کے فائٹر ونگ سے ہے۔
Rangers
اطلاعات کے مطابق پولس اور رینجرز گذشتہ چار ماہ کے آپریشن کے سلسلے میں حکومتی رویئے سے اور اپنی محنت کی بربادی پر خاصی مایوسی کا شکار ہیں۔ آج حکومتِ سندھ ادارے ٹپی کی بجائے سندھ حکومت کے چیف سیکریڑی شکیب قریشی سے ہدایات لے رہے ہیں۔ شکیب قریشی سابقہ ایس پی کلفٹن ہیں جو مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کا مجرم بھی تھا اور سزا یافتہ ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اُس کو بری کر کے بحال بھی کر دیا ہے۔ جو پولس میں من مرضی کے لوگوں کی تعُناتی کرانے میں مصروف ہیں۔ ایک اور سزا یافتہ پولس افسر فیاض لغاری کوآئی جی سندھ بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح ایک اور پنجاب کا بگڑا ہوا بیوروکریٹ جس نے شہباز شریف کے لئے بھی مشکلات پیدا کی ہوئی تھیں سلیم ہوتیانہ کو سندھ کا چیف سیکریٹری بنا دیا گیا ہے۔ رائے سکندر جو بے نظیر کے دوسرے دور حکومت کے خاتمے پر بد عنوانیوں کے الزام کے تحت سزا یافتہ ہے اس کو بھی واپس بلا لیا گیا ہے۔ اب سندھ حکومت آپریشن کے نام پر ڈرامے رچانے کے موڈ میں دکھائی دیتی ہے تو روشنیوں کا یہ شہر کراچی ٹار گیٹ کلرز کی آماجگاہ کیوں نہیں بنے گا؟
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com