کائنات کی ہر شے کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا وہی ہماری زندگی موت، معاش و معاد، تقدیر وتدبیر، عقل وفہم، عزت و ذلت، دکھ سکھ، غرض سب پر مختار کل ہے، وہی خالق وہی مالک ہے ، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ،اسی کے حضور سب کو پیش ہونا ہے۔ اللہ پاک کے سوا کسی اور کو اللہ تعالیٰ کے مثل، برابر یا اس کے مقابل سمجھنا مثلاً نباتات اور جمادات کو معبود بنا لینا شرک ہے۔ جیسا کہ ہندوئوں نے تلسی کے پودے برگدھ کو اور پیپل کے درخت کو اور مٹی وپتھر کی بے جان مورتیوں کو معبود بنالیا۔یا کسی جانور کو اللہ تعالیٰ کے برابر سمجھنا جیسے ہندوئوں نے گائے اور سانپ وغیرہ کی پوجا کی کسی نے آگ کے آگے سجدے کئے یا کسی بیرونی طاقت کی پرستش کرنا جیسے چاند، سورج، ستارے وغیرہ یا کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کے برابر سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ ان کو بھی اللہ تعالیٰ کے مانند انسانی زندگیوں پر کوئی اختیار ہے اور یہ بھی ہماری حاجات پوری کر سکتے ہیں، کھلا شرک ہے جو کہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” یہ کہ تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی نے تجھ کو پیدا کیا ہے ۔” اس حدیث میں بتا دیا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ شرک ہے جس سے ہر انسان کو بچنا چاہیے شرک کی مذمت قرآن مجید میں اکثر مقامات پر آئی ہے۔
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس باتوں کی وصیت کی ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر، اگرچہ تو مارا جائے یا جلایا جائے”۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت ضروری دس وصیتیں ارشاد فرمائی ہیں جن میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو خواہ توحید پرستی کی وجہ سے کتنی ہی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی جائیں یہاں تک کہ کوئی مار ہی کیوں نہ ڈالے یا زندہ ہی کیوں نہ جلادے۔ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے سے قبل بھی جس قدر اللہ تعالیٰ کے نبی اور پیغمبر آئے سب نے اپنی قوموں کو شرک اور بت پرستی سے روکا، انہیں جہالت سے نکالا اور علم کا نور دیا، کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی دکھائی، معبود باطل کی پرستش کی بجائے ایک اللہ کی عبادت کرنے کی تلقین کی، انکار وسرکشی کی راہ سے ہٹا کر اطاعت اور فرمانبرداری کی ہدایت کی۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک سب کے سب یہی تعلیم دیتے رہے کہ اللہ ایک ہے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ مانو صرف اسی کو قادر مطلق حاضر وناظر زندہ و قائم سمجھو لیکن اکثر لوگ اپنے باپ دادا کی راہ چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے وہ برابر شرک اور بت پرستی کے باطل عقیدوں میں مبتلا رہے،بالآخر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن مجید نازل فرمایا جو کتاب ہدایت ہے، آپ نے لوگوں کو گمراہی سے روکا سیدھا راستہ دکھایا اور سب سے بڑی غلطی یعنی بت پرستی سے باز کیا، ایک ربّ کو ماننے پر زور دیا اور بتایا کہ تمام گناہ کچھ نہ کچھ سزا بھگتنے پر معاف ہوجائیں گے لیکن شرک کسی قیمت پر معاف نہیں کیا جائے گا۔
توحید پرستی پر اس قدر زور اس لیے دیا گیا کہ انسانی زندگی کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔ اعلیٰ اخلاق، صالح اعمال، نیک اقوال اور منصفانہ معاملات صرف اسی عقیدے پر مبنی ہیں، نیکی کی جزا اور بدی کی سزا کا خیال اور مشکلات میں سہارے کی امید صرف اسی عقیدے پر قائم ہے۔ احسان کی طرف رغبت اور ظلم سے نفرت آخرت کا خوف اور رحمت کی امید اسی عقیدے سے وابستہ ہے۔ آخرت میں سرخروئی اور کامیابی اسی پر منحصر ہے۔
اگر یہ عقیدہ موجود نہ ہوتو دنیا فتنہ وفساد، ہنگامہ وخونریزی خود غرضی، مطلب پرستی ،لوٹ مار اور لڑائی جھگڑے کا گھر بن جائے۔ان حالات کے پیش نظر توحید کا عقیدہ قائم رکھنا ضروری ہے خواہ دین و ایمان کے دشمن توحید کے ماننے والوں کو سخت سے سخت سزائیں کیوں نہ دیں ،مار ڈالنے کی دھمکی دیں، آگ میں ڈال دیں، سلگتے ہوئے کوئلوں پر لٹا دیں توحید کو چھوڑنا ہرگز ہرگز جائز نہیں کیونکہ زندگی اسی سے قائم ہے لیکن اگر انسان کا ایمان نہیں اور ایمان کی بنیاد توحید پر نہیں تو زندگی کسی کام کی نہیں اور یہ آخرت میں جہنم کا ایندھن بنے گا۔
بلاشبہ شرک تمام بدیوں کی جڑ، تمام گناہوں کا منبع اور تمام گمراہیوں کا آغاز ہے اس سے انسان کے اعتقادات ناقص ہوجاتے ہیں افعال و اعمال ادھورے رہ جاتے ہیں۔ اخلاق و اطوار گندے ہوجاتے ہیں اور سرتاپا زندگی غلاظت اور آلودگی میں غرق ہوجاتی ہے۔انسان جب شرک کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے وہ ایک کشتی میں سوار ہونے کی بجائے کئی کشتیوں میں سوار ہوا اور ظاہر ہے کہ یہ حالت ہمیشہ ناپائیدار اور برباد کرنے والی ہے اس سے پریشانیوں میں اضافہ ، زندگی اجیرن، اور چین اور اطمینان دور بھاگتاہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اعتقادات اور اعمال کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہمارے اقوال و افعال میں کہیں شرک کا عنصر تو موجود نہیں ،تاکہ اس سب سے بڑے گناہ سے خود کو بچایا جا سکے۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان
ای میل :ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033