تحریر : عبدالرزاق چودھری ان دنوں ہندوستان کی سر زمین پر شیو سینا کے غنڈوں کا راج ہے۔انتہا پسند تنظیم شیو سینا اگرچہ ابتدا ہی سے پاکستان اور پاکستانی باشندوں کو نشانہ بناتی رہی ہے لیکن گزشتہ کچھ دنوں سے اس کی مذموم کاروایاں نقطہ عروج کو چھو رہی ہیں۔پاکستان سے بھارت جانے والے ہر معروف پاکستانی کو دھمکیاں ملنا معمول کی بات ہے اور ہندوستان میں موجود پاکستانیوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔
پہلے سنگیت کے گرو غلام علی کے ساتھ شیو سینا کے ناروا سلوک کی خبر میڈیا کی زینت بنی اور بعد ازاں ایسے واقعات کا اک سلسلہ چل نکلا۔خورشید محمود قصوری جو پاکستان کے سابق وزیر خارجہ بھی ہیں ان کی کتاب رونمائی کے دوران پیش آنے والے ناخوشگوار واقعہ کی بازگشت ابھی پاکستان اور ہندوستان کی فضاوں میں گونج رہی تھی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ شہر یار خان اور معروف صحافی نجم سیٹھی کے دورہ بھارت کے دوران پیش آنے والی ہنگامی آرائی نے ہندوستان کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کر دیا۔
پی سی بی چیرمین شہریار خان نجم سیٹھی کے ہمراہ کرکٹ تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں جب بھارت گئے تو شیو سینا کے غنڈوں نے ان کا استقبال دھمکی آمیز بیانات سے کیا۔اور بعدازاں شیو سینا کے درجنوں انتہا پسند کارکنوں نے صدر بھارتی کرکٹ بورڈکا گھیراو کر لیا اوردفتر میں توڑ پھوڑ شروع کر دی۔جس کے نتیجے میں بھارتی کرکٹ بورڈنے پاکستان کرکٹ بورڈ سے بات چیت منسوخ کر دی۔شیو سینا کے کارکنوں نے پاکستان مخالف نعرے بازی کی اور پاکستان کو دہشت گردوں کا پشت پناہ ملک قرار دیا۔شییو سینا کے رہنماوں نے علی لاعلان کہا کہ وہ پاکستان سے کس بھی قسم کے تعلقات کی بحالی نہیں چاہتے چاہے ان کی نوعیت سیاسی،ثقافتی اور کھیل کے حوالے سے ہو۔
Shiv Sena Riots
شیو سیینا کی دھمکیوں اور ہنگامہ آرائی کی گونج آئی سی سی تک جا پہنچی اور انہوں نے حفط ماتقدم کے طور پر معروف پاکستانی ائمپائرعلیم ڈار کو ہندوستان اور جنو بی افریقہ کے درمیان ہونے والی رواں کرکٹ سیریز میں ائمپائرنگ کرنے سے روک دیا ہے جبکہ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوے پاکستانی کرکٹ سٹارز وسیم اکرم اور شعیب اختر نے بھی پانچویں ون ڈے میں کمنٹری کرنے سے معذرت کر لی ہے اور دونوں جلد ہی پاکستان لوٹنے والے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان دسمبر میں ہونے والی کرکٹ سیریز کے امکانات بھی معدوم ہو گئے ہیں جس پر پی سی بی کے چیرمین شہر یار خان نے مایوسی کا اظہار کیا ہے اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے رویہ کو افسوسناک قرار دیا ہے۔دوسری جانب پاکستان مییں بھی ہندوستانی ناروا سلوک کے رد عمل میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔پاکستان کے سابق کرکٹرز نے اپنے رد عمل میں کہا کہ قومی وقار کو داو پر لگا کرہندوستان سے روابط برقرار رکھنا کہاں کی دانش مندی ہے۔پاکستان کو ہندوستان کے حوالے سے واضح اصولی اور سخت موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔اور اب وقت آ گیا ہے کہ عزت نفس کو داو پر لگا کر ہندوستان سے تعلقات کی بحالی کی خواہش کو ترک کر دینا چاہیے۔
اگرچہ انتہا پسندی کے واقعات تقسیم پاکستان سے ہی دیکھنے میں آ رہے ہیں لیکن جب سے مودی سرکار بر سر اقتدار آئی ہے انتہا پسندی کے واقعات میں شدت آ گئی ہے جس سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ ان تمام واقعات کی پشت پناہ مودی حکومت ہے وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہندوستان گھر آئے مہمانوں کی حفاطت کرنے سے قاصر ہو اور قانون اس قدر بے بس ہو کہ شیو سینا کے چند بپھرے غنڈوں کو قابو نہ کر سکے۔حقیقت تو یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا ماضی مسلم دشمنی سے عبارت ہے اور مودی کسی بھی صورت مسلمانوں کو خوشحال نہیں دیکھ سکتالیکن مودی کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ اس نے جو آگ ہندوستان میں بھڑکائی ہے اگر اس کا دائرہ کا روسیع ہو گیا تو ہندوستان کو عبرتناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مودی کی اس مسلم کش پالیسی کو دیکھ کر ہندوستان کا حساس طبقہ یعنی ادیب اور دانشور بھی فکرمند ہیں اور دھڑا دھڑ سرکاری ایوارڈ سرکار کو واپس کیے جا رہے ہیں۔ان تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوے اب پاکستان کو بھی چاہیے کہ برابری کی سطح پر ہندوستان سے تعلقات استوار کیے جائیں۔اگر ہندوستاں پاکستان سے دوستی نہیں چاہتا تو پاکستان کو بھی اپنا ہاتھ واپس کھینچ لینا چاہیے تا کہ ملکی وقار پر کوئی آنچ نہ آئے۔پاکستان کو اس بات کا بخوبی احساس ہو جانا چاہیے کہ ہند وستان میں ایک ایسے شخص کی حکومت ہے جس کی پوری زندگی مسلمانوں سے نفرت کرتے گزری ہے اور اس کے مظالم کی داستان صفحہ قرطاس پر بکھری پڑی ہے۔اس لیے ایسے شخص سے اچھی امید رکھنا دیوانے کا خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔