تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم البغدادیہ ٹی وی چینل کے ایک رپورٹربش منتظر الزیدی نے چودہ دسمبر 2008 میں ایک ایسی روایت کی بنیاد رکھی جو کسی بھی مہذب معاشرے کے کسی بھی باعزت شہری کا شیوہ نہیں کہلا سکتی بغداد میںتب کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور عراقی وزیراعظم نوری المالکی کی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران اچانک ایک صحافی کھڑا ہو گیااور اس نے یکے بعد دیگرے اپنے دونوں جوتے صدر بش پر پھینکے۔جوتے پھینکنے کے بعد اس صحافی نے چیخ کر کہا :”یہ ہے عراقی عوام کی طرف سے تمہارا الوداعی بوسہ”۔صحافی نے جوتا اس وقت اچھالا جب بش عراق میں حاصل ہونے والی کامیابیاں گنوا رہا تھا وقت کی ستم ظریفی دیکھیں 2003 میں جب بش نے صدام حسین کا تختہ الٹا تو لوگوں نے بغداد میں صدام کے بت پہ جوتوں کی برسات کی 2008میں بغداد ہی میں بش پہ جوتا اچھالا گیا۔
سابق امریکی صدر پہ جوتے اچھالنے والے صحافی کوبہت شہرت ملی اِس واقعے نے انہیں دنیا بھر میں بش مخالف افراد کا ہیرو بنا دیا تھارہائی کے بعدصحافی کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا قاہرہ میں قائم ایک چھوٹے ٹی وی چینل البغدادیہ کے مالک نے اپنے چینل سے وفاداری کے صلے میں صحافی کوایک نیا گھر دیادوران قید ٹی وی چینل ان کی فیملی کو باقاعدہ تنخواہ بھی دیتی رہی بغداد سے لے کر فلسطینی علاقوں تک کی خواتین نے انہیں شادی کے پیغامات بجھوائے بش پہ پھینکا جانے والا جوتا ترقی کی ایک کمپنی نے تیار کیا تھا جوتے کا ماڈل نمبر 271 تھا امریکا کے صدر جارج بش پر جوتامارنے کے بعداس جوتے کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا اور تین لاکھ جوتوں کے آرڈر موصول ہوئے ترکی کے جوتا ساز کارخانے نے اس کا نام بدل کر” بش جوتا” رکھ دیا ہے اسلامی ممالک میں اس جوتے کی مانگ کے علاوہ امریکا کی ایک کمپنی نے بھی اٹھارہ ہزار جوتوں کا آرڈر دیا ہے۔
بعد ازاں یورپ میں ایک کمپنی نے اس جوتے کو یورپ میں بیچنے کے لیے معاہدہ بھی کیا چودہ دسمبر 2008کوبش پہ جوتا پھینکنے والے منتظر الزیدی ہی تھے ماضی میں بھی کئی عالمی رہنمائوں پہ جوتے اچھالے گئے ان میںبرطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون ، ٹونی بلیئر ،سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن پر لاس ویگاس میں تقریب کے دوران ایک خاتون نے جوتے سے حملہ کیاسابق آسٹریلوی وزیرِ اعظم جان ہاروڈ پر عراق جنگ مخالف شخص نے ٹی وی شو کے دوران جوتا اچھالاسابق بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ اور وزیرِ داخلہ چدم برم پر بھی جوتے برسائے گئے۔عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال اور مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ پر بھی جوتوں کے وار ہو چکے ہیں۔
منتظر الزیدی نے جس روایت کا آغاز بغداد سے کیا تھا یہ روایت عرب ممالک سے پاکستان میں بھی بڑی تیزی سے مقبول ہوئی پاکستان میں بھی کئی رہنما اس کی زد میں آئے دو ہزارآٹھ میں سندھ اسمبلی میں جب سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم داخل ہورہے تھے تو آغا جاوید پٹھان نامی شخص نے جوتا دے ماراسابق پاکستانی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر برطانیہ میں ایک تقریب کے دوران جوتا اچھالا گیا تھادو ہزار سترہ میں پاکستان سپر لیگ کا فائنل میچ دیکھنے کے لئے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید جب ٹرین کے ذریعے لاہور ریلوے سٹیشن پہنچے تو فقیر محمد نامی بزرگ شہری کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ اپنا جوتا ان پر اچھال دیا 5 فروری 2018 کو اسلام آباد میں جاری محسود قبائل کے دھرنے میں مشتعل افراد نے پیپلزپارٹی کے وفد پر بھی جوتے اور بوتلیں پھینکی تھیںحال ہی میں ایک تقریب کے دوران وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری احسن اقبال کی جانب بھی جوتا پھینکا گیا تاہم وہ بال بال بچ گئے۔
دس مارچ کو سیالکوٹ میں بھی ایک تقریب سے خطاب کے دوران وزیر خارجہ خواجہ آصف پر ایک نوجوان نے سیاہی پھینک دی تھی۔ ملزم کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ختم نبوت ۖ سے متعلق ترمیم پر اس نے یہ قدم اٹھایاچوبیس ستمبر دو ہزار سات میں ایک شخص نے احمد رضا قصوری کے منہ پر سپرے کر کے ان کا منہ کالا کردیا تھاگیارہ مارچ کوجامعہ نعیمیہ میں ہونے والے سیمینار میں جیسے ہی سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اسٹیج پہ خطاب کے لئے پہنچے توان پہ ایک سے زائد جوتے اچھالے گئے جو ایک ان کے بائیں کندھے پہ لگا جوتا پھینکنے والے شخص نے ختم نبوت اور ممتاز قادری زندہ باد کے نعرے بھی لگائے اسی دن فیصل آباد میں پی ٹی آئی قائد عمران خان پہ بھی جوتا پھینکنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی جوتے پھینکنے والے نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پنجاب کے وزیر قانون کے داماد نے جوتا پھینکنے کا کہا تھا سابق وزیراعظم پر تقریب کے دوران جوتا پھینکنے کی سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے شدید الفاظ میں مذمت کی ،ایسے واقعات جمہوری رویوں کیخلاف سازش ہیں،سیاست میں برداشت اوررواداری کومقدم رکھاجانا ضروری ہے جوتاپھینکنا اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے جوتاپھینکنے کی روایت سے سیاسی قیادت کیلئے خطرات پیداہوں گے جوتا پھینک مہم کا سدباب وقت کی اہم ضرورت ہے جوتاپھینکنے والے کیخلاف کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ کسی کو ایسی گھنائونی حرکت کرنے کی ہمت نہ ہو۔