تحریر : سجاد گل پرانے وقتوں کی بات ہے ایک بادشاہ تھا جس خطے میں اسکی بادشاہت تھی اس کے باشندے بے انتہاغافل اور بیوقوف تھے ،ایک وزیرنے بادشاہ کے سامنے یہی حقیقت رکھی کے بادشاہ سلامت اگرجان کی امان دیں تومیں آپ کوایک کڑوی حقیقت سے آگاہ کروں ۔بادشاہ نے اجارت دے دی ۔وزیرنے عوام کی غفلت اوربیوقوفی کاراز بادشاہ کے سامنے کھول دیا،بادشاہ وزیر کی بات سن کرغضب ناک ہوگیا،غصے میں کہااس بیوقوف اورگستاخ کاسرقلم کردو،جلادنے چمکتی تلوارنکالی اوروارکرنے کیلئے تلواراوپرکواٹھائی ہی تھی کہ وزیرچیخ پڑااوربولابادشاہ سلامت میں نے جوبھی کہاسچ کہامیں اپنی سچائی دلائل سے ثابت کرسکتاہوں۔
بادشاہ نے جلاد کوروک دیااوروزیرکوپانچ دن کاوقت دیاکہ وہ اپنی بیان کردہ گستاخی کوسچ ثابت کرے ورنہ ماردیا جائے گا۔ وزیرنے پانچ دن کاوقت ملنے پراللہ کاشکراداکیااوربادشاہ سے کہاکہ حضورِ والا کیوں کہ اب مسئلہ میری زندگی کا ہے لہذا اس بات کی اجازت عنایت فرمائیںکہ ان پانچ دنوں میں مَیںجس طرح چاہوں اپنی سچائی ثابت کروں ، بادشاہ نے اس کی اجازت دے دی ۔اگلے دن وزیرنے جگہ جگہ اعلان کروائے کہ بادشاہ سلامت کاحکم ہے کل ہرآدمی فلاں جگہ حاضرہوگااورروزانہ ایک ایک جوتاکھاکرواپس اپنے معمول کے کام کرے گاپھرکیاتھاہرطرف سے لوگوں کی بھیڑ آتی اورجوتاکھاکرواپس چلی جاتی ،دودن مسلسل یہ کام چلتارہا،تیسرے دن عوام نے احتجاج کافیصلہ کرلیا۔
احتجاج پرآمادہ کرنے والاشخص شعلہ بیان مقررتھا،اس نے کڑاکے دارتقریرکرکے لوگوں کے دلوں کوگرمایا،میرے بھائیوں اس ملک میں کوئی ڈسپلن نہیں ،بادشاہ کے حالیہ حکم پرعوام کوطرح طرح کے خدشات ہیں ،لہٰذاہم نے احتجاج کافیصلہ کیاہے ،اگرہمارے مطالبات سے چشم پوشی کی گئی توہم دھرنا دیں گے ،آگے سے طرح طرح کی آوازیں آنے لگیں ،ہاں ہاں دھرنادیں گے ،یہ ظلم ہے ظلم ،ظلم کانظام نہ منظور،،پھرکیاتھایہ احتجاجی ا جتماع بادشاہ کے محل کے سامنے پہنچ گیا،بادشاہ نے لوگوں کاہجوم دیکھاتواسکا چہرہ خوشی سے تمتمانے لگا،بادشاہ کویقین ہوگیاکہ اسکی عوام غافل اوربیوقوف نہیں ،ادھروزیرکے مارے خوف کے پسینے چھوٹنے لگے ،وہ اپنی آخری سانسیں گننے لگا،بادشاہ نے فخرسے کہا۔۔۔او ۔۔بیوقوف ،،آئواوردیکھومیری عوام کسقدرفہم وفراست کی عامل ہے۔
Price Guide for Battle
چلوان کے مطالبات سنتے ہیں ،اسکے بعدتمہاراسرقلم کردیاجائے گا،دونوں محل کی چھت پرپہنچ گے ،بادشاہ نے احتجاجی دھرنے سے ان کے مطالبات پوچھے ،دھرنے کے لیڈرنے اپنے سنہری مطالبات بادشاہ سلامت کے سامنے رکھے ،بادشاہ سلامت آپ انسانوں کے حکمران ہیں نہ کے جانوروں کے ،جناب آپ نے پچھلے دودنوں سے ظلم کابازارگرم کیاہواہے ،آپ نے جوجوتاماراسکیم نکالی ہے میں اس کی بات کررہاہوں ،جناب وہاں کوئی ڈسپلن نہیں ،بھیڑبکریوں طرح وہاں سب ریوڑ کی طرح جوتے کھاتے ہیں ،جناب ہمارے مطالبات یہ ہیں کہ وہاں قطار یں بنائی جائیں اوراس کام پرکم ازکم پچاس آدمی مقررکئے جائیں تاکہ کوئی آدمی جوتاکھائے بغیرنہ رہے اورڈسپلن کیساتھ یہ کام چلتارہے ،بادشاہ نے یہ مطالبات سنے تواس کاسرشرم سے جھک گیا،اوروزیرنے زورکاقہقہ لگایا۔گستاخی معاف ،کیاآج ایسی ہی صورت حال ہمارے جان سے پیارے ملک کی نہیں ہے؟۔
عوام پچھلے ٧٠سال سے بادشاہوں ،ڈکٹیٹروں ،صدروںاوروزیراعظموں سے جوتے کھارہے ہیں ،اور٧٠سالہ تاریخ احتجاجوں اوردھرنوں سے بھری پڑی ہے مگراحتجاج اوردھرنے اوپردرج کردہ کہانی جکچھ زیادہ مختلف نہیں تھے،ہرایک نے اس بات سے چشم پوشی کی کے یہ ملک ہم نے حاصل کس لئے کیا تھا ، ہم نے اس ملک کوریت ،مٹی ،پتھراوردھرتی سے زیادہ سمجھاہی نہیں ،پاکستان ایک امانت ،نظریئے اورنظام کانام ہے ،امانت یہ کہ ہمیں اللہ نے یہ ملک نعمت کی صورت میں عطاکیااوراللہ کی ہرنعمت امانت ہے ،نظریہ یہ کہ ہم مسلم ہیں اورہندوئوں کے ساتھ مل کرنہیں رہ سکتے ہمارااپناایک تشخص ،ایک حیثیت ہے ،نظام یہ کہ ہم نے پاکستان حاصل ہی اس لیے تھاکہ ہم اللہ اوراس کے رسول ۖ کے احکامات اس ملک میں نافذالعمل کریں گے ۔امانت کے ساتھ ہماری یہ روش رہی کہ جس نے جتناچاہااس بے چارے ملک کولوٹا۔نظریہ ہم نے پائوں تلے روندیا،اورنظام کی بات کریں توسرشرم سے جھک جاتاہے۔
سوال یہ ہے کہ کیااس ملک میں واقعی نظام اللہ اوراس کے رسول ۖ کے احکامات کے مطابق ہے کیانظامِ جمہوریت اسلام کانظام ہے یامغرب کافرسودہ اوربوگس نظام ہے ؟ہمیں اس پرسوچناہوگا۔ اسکی فکرکرنی ہوگی ،اگرہم نے اس نظام کوتبدیل نہ کیاتوجوتاماربادشاہ ہم پرمسلط ہوتے رہیں گے اورہم ڈسپلن اورلائنوں کی رٹ لگاکروقت گزارتے رہیں گے اگرنظام تبدیل نہ کیاگیاتوخواہ جتنے بھی ایماندارلوگ اوپرآجائیں ہم کبھی بھی خوشحال نہیں ہوسکتے ،اگریہی بدنماجمہوریت رہی توکچھ فرق نہیں پڑتاکہ اس ملک کاصدرگلوبٹ کوبنادیاجائے اوروزیراعظم تاجی کھوکرکو ،وزیرداخلہ چچا نورے کو بنادیاجائے اور وزیر خزانہ سلطانے ہٹی والے کو،وزیرریلوے موسیٰ خان ٹرک والے کواور وزیردفاع پپوبدمعاش کوبنادیاجائے ،وزیرقانون بھینسیںچوری کرنے والے موٹاگجرکوبنادیاجائے ۔ سورج چڑتاہے غروب ہوتاہے ،دن رات گزررہے ہیں گزرتے رہیں گے۔ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے بس یونہی عمر تما م ہوتی ہے مگرہم نے اسی طرح جوتے کھاتے ہوئے سفرِزیست رواں نہیں رکھنا بلکہ ان جوتوں کا کوئی موئثر اور مستقل علاج کرنا ہے اور یاد رکھئے گا بقول ڈاکٹر اسرار صاحب مرحوم اس جمہوری نظام میں ہمارے لئے کسی قسم کی کوئی خیر موجود نہیں۔
Sajjad Gul
تحریر : سجاد گل dardejahansg@gmail.com Phon# +92-316-2000009