تحریر: پروفیسرمحمد عبداللہ بھٹی روزِ اول سے آج تک کروڑوں انسان ا س دنیا فانی میں آئے کھا یا پیا بچے پیدا کئے اپنا وقت پورا کیا اور پیوند ِ خاک ہو گئے ۔اِس کروڑوں انسانوں میں اکثریت نے کیڑے مکوڑوں کی سی زندگی بسر کی اِس میں سے چند انسانوں نے اقتدار و شہرت کے مزے بھی لوٹے۔ کچھ لوگوں کو اللہ تعالی نے اِ س قدر عروج عطا کیا کہ لاکھوں انسانوں کی زندگی موت اِن کے اشاروں کی مہتاج تھی جب یہ زندہ تھے کروڑوں دلوں کی دھڑکنوں میں زندہ تھے یہ چلتے تھے تو زمانہ چلتا تھا یہ اداس ہوتے تو زمانہ اداس ہو جاتا ۔جب یہ دنیا سے گئے تو اُس وقت یہی لگا کہ اب زندگی دوبارہ کبھی نہیں مسکرائے گی ۔لیکن وقت کروڑوں لوگوں کو اِس آسانی سے ہضم کر گیا کہ آج کسی کو اُن کا نام پتہ تک معلوم نہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ء کرام میں سے چند کے ناموں سے ہی ہم واقف ہیں کہا ں گئے۔
وہ فرعون ، بادشاہ اور طاقتور حکمران جو خود کو مختار کل اور زندگی موت کا وارث سمجھتے تھے کہا ں گئے وہ لوگ آج زیرِ زمین حشرات الارض ان کی ہڈیوں میں سوراخ کر رہے ہونگے۔ لحد اُن کے تن بوسیدہ کو فشار دے رہی ہو گی ۔ان کی بے نشان قبروں ، مقبروں پر ابا بیلوں کے مسکن ہیں کوئی فاتحہ خوان نہیں کوئی چراغ روشن نہیں آج اُن لوگوں پر کیا عالم تنہائی ہے ۔لیکن قدرت کے کچھ عجیب راز ہیں بعض اوقات خالق ِ بے نیاز کسی عام معمولی انسان کو ایسی لازوال شہرت عطا کرتا ہے ایسا تاج ِ شاہی پہناتا ہے کہ قیامت تک جسے اندیشہ زوال نہیں ہوتا ۔کسی عام انسان کو کسی خاص واقعہ یا خاص انسان سے جوڑ کر قیامت تک امر کر دیتا ہے بڑے بڑے حکمران اُن کو رشک کی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔قدرت اِسی طرح آج عرب میں قبیلہ بنی سعد پر بہت مہربان تھی ۔کیونکہ اِس قبیلے کے میاں بیوی اور بچوں کو لازوال شہرت ملنے والی تھی اِیسی شہرت کہ قیامت تک زمانہ اُن کی قسمت پر رشک کرنے والا تھا۔
صدیوں کی پیاسی انسانیت کی پیاس بجھانے کے لیے فخرِ دوعالم سرور کونین آقا ء دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم اِس دنیا میں تسریف لا چکے تھے ۔آپ کی والدہ ماجدہ نے کئی دن آپ کو دودھ پلایا پھر ابو لہب کی آزاد کی ہوئی لونڈی ثوبیہ نے چند دن پلایا ۔عربوں میں زمانہ قدیم سے ایک دستور تھا کہ شہر کے لوگ اپنے شیر خوار بچوں کو صحرا میں بدوی زندگی میں بھیج دیا کرتے تھے تاکہ بچے عرب کی خالص تہذیب اور زبان سے آگہی حاصل کر سکیں۔مدتِ رضاعت ختم ہونے پر عوضانہ دے کر بچے واپس کر دیے جاتے ۔ مکہ کے نواح میں آباد بدوی قبائل کی عورتیں سال میں دو دفعہ ربیع و خریف میں بچوں کی تلاش میں مکہ آتیں اِس دفعہ قحط سالی کی وجہ سے حلیمہ سعدیہ اپنے خاوند اور دس عورتوں کے ساتھ مکہ آتی ہیں ۔حلیمہ کے خاوند کا نام حارث بن عبدالغری تھا اِن کے بچوں کے نام عبداللہ ۔ انیسہ حزافہ جن کا لقب شیما تھا یہ ننھے محمد صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم کو گود میں کھلاتی تھیں ۔دوران رضاعت حلیمہ سعدیہ نے برکت کے ایسے ایسے مناظر دیکھے کہ حیران رہ گئیں۔
تفصیل اُنہی کی زبانی سُنیں اِبن اسحاق کہتے ہیں حضرت حلیمہ فرماتی ہیں میں اپنے شوہر کے ساتھ اپنا ایک چھوٹا سا دودھ پیتا بچہ لے کر بنی سعد کی عورتوں کے ساتھ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں نکلیں یہ قحط سالی کے دن تھے اور قحط نے کچھ بھی نہ چھوڑا تھا میں اپنی سفید گدھی پر سوار تھی ہمارے پاس ایک اونٹنی بھی تھی لیکن بخدا اُس میں سے ایک قطرہ دودھ بھی نہ نکلتا تھا اِدھر بھوک سے بچہ اِس قدر روتا کہ ہم رات بھر سو نہ سکتے تھے اور میرے سینے میں بھی دودھ کا قطرہ تک نہ تھا۔
Allah
بس ہم بارش کی آس لگائے بیٹھے تھے میں اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلی تو وہ کمزوری کے سبب اتنی سست رفتار نکلی کہ پورا قافلہ تنگ آگیا خیر ہم کسی نہ کسی طرح دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ پہنچ گئے پھر ہم میں سے تمام عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم کو پیش کیا گیا مگر جب بتا یا جاتا کہ آپ یتیم ہیں تو وہ لینے سے انکار کر دیتیں۔ کیونکہ ہم بچے کے والد سے انعام وکرام کی امید رکھتے تھے جب ہمیں پتہ چلتا کہ یہ یتیم ہے تو بھلا اِس کی بیوہ ماں اور اِس کا دادا کیا دے سکتے ہیں بس یہی وجہ تھی کہ ہم آپ کو لینا نہیں چاہتے تھے اِدھر جتنی بھی عورتیں میرے ساتھ آئیں تھیں سب کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیا صرف مجھ کو ہی نہ مل سکا ۔جب واپسی کی باری آئی تو میں نے اپنے شوہر سے کہا خدا کی قسم مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میری ساری سہلیاں تو بچے لے کر جائیں۔ اور تنہا میں کوئی بچہ لیے بغیر واپس جائوں میں جا کر اِس یتیم بچے کو لے لیتی ہوں۔
شوہر نے کہا کوئی حرج نہیں ممکن ہے اللہ اِسی میں ہمارے لیے برکت ڈال دے ۔ اِ س کے بعد میں نے جا کر بچہ لے لیا اور محض اِس بنا پر لے لیا کہ کوئی اور بچہ نہ مل سکا ۔حضرت حلیمہ سعدیہ کہتی ہیں کہ جب میں بچے کو لے کر اپنے ڈیرے پر واپس آئی اور اسے آغوش میں رکھا تو اُس نے جس قدر چاہا دونوں سینے دودھ کے ساتھ اُمڈ پڑے اور اس نے جی بھر کر دودھ پیا ۔اِس کے ساتھ اِس کے بھائی نے بھی شکم سیر ہو کر پیا پھر دونوں بچے سو گئے حالانکہ اِس سے پہلے ہم اپنے بچے کے ساتھ سو نہیں سکتے تھے ادھر میرے شوہر اونٹنی دوہتے گئے تو دیکھا کہ اس کا تھن دودھ سے لبریز ہے انہوں نے اتنا دودھ دوہا کہ ہم نے آسودہ ہو کر پیا اور بڑے آرام سے رات گزاری ۔صبح ہوئی تو میرے شوہر نے کہا حلیمہ خدا کی قسم تم نے ایک با برکت روح حاصل کی ہے میں نے کہا مجھے بھی یہی توقع ہے۔
حلیمہ کہتی ہیں اِس کے بعد ہمارا قبیلہ روانہ ہو ا میں اپنی خستہ حال گدھی پر سوار ہوئی اور اِس بچے کو بھی ساتھ بٹھا لیا ۔لیکن وہی گدھی خدا کی قسم پورے قافلے کو کاٹ کر اِس طرح آگے نکل گئی کہ کوئی گدھا اس کا ساتھ نہ پکڑ سکا۔یہاں تک میری سہیلیاں مجھ سے کہنے لگیں او ابو ذویب کی بیٹی ارے یہ کیا ذرا ہم پر مہربانی کر آخر یہ تیری وہی گدھی تو ہے جس پر تُو سو ار ہو کر آئی تھی میں کہتی ہاں ہاں بخدا یہ وہی ہے وہ کہتیں اِس کا یقیناکوئی خاص معاملہ ہے۔ پھر ہم گھروں کو آگئے ہمارا خطہ روئے زمین کا سب سے زیادہ قحط والا علاقہ تھا لیکن ہماری واپسی پر میری بکریاں چرنے جاتیں تو دودھ سے بھری واپس آتیں ۔دوسروں کے جانوروں کے تھنوں میں دودھ کا قطرہ بھی نہ ہوتا ۔اِس طرح ہم اللہ کی طرف سے مسلسل اضافے اور خیر کا مشاہدہ کرتے رہے یہاں تک کے دو سال ہو گئے میں دودھ چھڑا دیا اور آپ کو آپ کی والدہ کے پاس لے گئے ہماری یہ شدید خواہش تھی کہ بچہ ہمارے پاس رہے ۔چنانچہ میں نے آپ ۖ کی والدہ سے مکہ کی وبا کا ذکر کیا تو آپ کی والدہ نے آپ ۖ کو ہمارے حوالے دوبارہ کر دیا (الرحیق المختوم )آپ ابھی حلیمہ سعدیہ کے پاس ہی تھے کہ ولادت کے چوتھے یا پانچویں سال شِق صدر کا واقعہ پیش آیا۔
آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ حضرت جبرائیل آئے آپ صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم کو لٹا کر سینہ چاک کیا دل نکلا پھر دل سے ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے پھر دل کو زمزم کے پانی سے دھو دیا پھر اِسے حکمت و ایماں سے بھر کر سی دیا ۔بچے دوڑ کر حلیمہ سعدیہ کے پاس آئے کہنے لگے کہ محمد قتل کر دیا گیا حلیمہ دوڑ کر آپ کے پاس پہنچیں تو آپ کا رنگ اترا ہوا تھا ۔اِس واقعہ کے بعد حلیمہ کو خطرہ محسوس ہوا اور انہوں نے چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ کے حوالے کر دیا ۔یقینا حلیمہ سعدیہ کا آنگن خوش قسمت ترین اور روشن ترین آنگن جہاں محمد ۖ کھیلا کرتے تھے مسکرایا کرتے تھے دوڑا کرتے تھے۔