دکاندار آن لائن پر صرف 5 فیصد کاروبار ہی کر پائے، ریسٹورنٹس کا کام چمک اٹھا

Computer Education

Computer Education

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) ملک میں محدود آن لائن خریداری رحجان کے باعث سخت لاک ڈاؤن کے دوران ٹیکسٹائل، ریڈی میڈ گارمنٹس، کپڑا، فٹوئیر، گروسری، برانڈڈ اشیائے خورونوش کے تیارکنندہ اور فروخت کنندگان کو آن لائن مارکیٹنگ کے ذریعے بمشکل 5فیصد کاروبار کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ، لیکن اس کے برعکس شام 5بجے سے رات 10بجے کے صرف 5گھنٹے کے دورانیے میں درجہ اول، دوئم اور سوئم کے ریسٹورینٹس کی ہوم ڈلیوری سروس کو بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی۔

ایک معروف درجہ اول کے ریسٹورنٹ کے مالک معز ملک نے ایکسپریس کو بتایا کہ لاک ڈاؤن کے باعث ٹیبل سروس معطل ہونے سے شہر بھر کے درجہ اول اور درجہ دوئم کے حامل ریسٹورنٹس کو مجموعی طورپر اگرچہ 50 تا 70 فیصد کاروباری نقصان پہنچا ہے لیکن اس لاک ڈاؤن کے دوران درجہ اول کے حامل ریسٹورنٹس کے ہوم ڈلیوریکاروبار میں 30 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، درجہ دوئم کے ریسٹورنٹس کی ڈلیوری بزنس میں 20 سے 25 فیصد اور درجہ سوئم کے ریسٹورنٹس کے ڈلیوری بزنس میں 20فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیاگیاہے البتہ شہر کے مختلف حصوں میں قائم چھوٹے پیمانے کے ریسٹورنٹس کو لاک ڈاؤن کے دوران 100 فیصد کاروباری نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے،ان میں سے اکثریت ہوم ڈلیوری بزنس کرنے سے بھی قاصررہے ہیں۔

کچھ چھوٹے ریسٹورنٹس نے محدود پیمانے پر صارفین کو پارسل سروس فراہم کی اور بعض نے کمیشن پر پانڈا سروس کی خدمات حاصل کیں، معز ملک کا کہنا تھا کہ حکومت ریسٹورنٹس کے ڈلیوری سروس کے دورانیے کو شام 5بجے سے سحری تک توسیع کردے تو کھانوں کی ہوم ڈلیوری کے کاروبار میں مزید 20فیصد کا اضافہ ممکن ہے، دوسری جانب لاک ڈاؤن کے دوران شعبہ ٹیکسٹائل نے بند دروازوں کے حامل دکانوں کے پیچھے اپنی مصنوعات فروخت کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا، پاکستانی گاہک چونکہ گارمنٹس کا انتخاب خوردہ دکانوں سے ازخود کرتے ہیں اس لیے صارفین کی جانب سے مینوفیکچرز کے بند اسٹوروں سے انتہائی محدود پیمانے پر تیار ملبوسات کی خریداری کی گئی البتہ عیدالفطر اور موسم گرما کے لیے بغیر سلے خواتین کے لان سوٹس اور مردانہ کپڑوں کی کچھ خریداری کی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں۔

لاک ڈاؤن کے دوران کچھ ایسی خواتین بھی گھر گھر زنانہ بغیر سلے اور تیار ملبوسات فروخت کرتی دکھائی دیں جو عمومی طور پر مختلف مصنوعات کی سیلز کے شعبے سے وابستہ ہیں یا کسی نجی کمپنی یا فیکٹریوں میں یومیہ اجرت پر کام کرتی ہیں جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہیں۔

لاک ڈاؤن سے پاکستان میں لاکھوں افراد کے بے روزگار ہونے کے خدشات کے باوجود بہت سے لوگوں نے بیروزگاری کے خدشے کا مقابلہ کیا ہے،خریداروں کے گھروں کی دہلیز پر شٹر ریٹیل آؤٹ لیٹس کے پیچھے سے تیار لباس ، بغیر سلے کپڑے ، الیکٹرانک مصنوعات،گروسری، ریسٹورنٹس کے تیار کھانوں کی فراہمی کے ذریعے برائے نام آمدنی حاصل کرکے اپنی کھوئی ہوئی ماہانہ آمدنی کو جزوی طور پر پورا کیا ، واضح رہے کہ عیدالفطر کی آمد میں دوہفتے باقی ہیں اور گرم موسم بھی ہے جس میں خصوصی طور پر خواتین کاٹن اور لان کا سوٹ خریدتی ہیں،ذرائع نے بتایا کہ مقامی ٹیکسٹائل انڈسٹری نے سال 2019 میں گرمیوں کی کاٹن اور لان سوٹ میں تقریبا 70 تا 100 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تھی،خوردہ سطح پر ٹیکسٹائل مصنوعات فروخت کرنے والوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران وہ کاروبار کو جاری رکھنے کے لیے آن لائن مارکیٹنگ کے ذریعے کچھ فروخت کرنے کی کوششیں کرتے رہے لیکن آن لائن مارکیٹنگ کے باوجود وہ اپنی معمول کی یومیہ آمدنی کا بمشکل 5فیصد آمدنی حاصل کرسکے ہیں۔