تاریخ کا بد ترین واقعہ نواسیِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شیر خدا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی حضرت بی بی زینب اور حضرت خالد بن ولید کے مزارات پر مزائل داغ کر ان کو شدید نقصان پہنچانا ہے یقینا وہ بد ترین انسان نشان عبرت بنے گے جنہوں نے یہ غلیظ کام کیا ہے، اس انتہا پسندی نے ان لوگوں کے تقدس کو بھی پامال کرنے کی کو شش کی ہے جن کی بدولت اسلام کی دولت ہم تک پہنچی اور ہم مہذب کہلائے۔ اگر حضرت بی بی زینب میدان کربلا میں اپنے دونوں لخت ِ جگر حضرت عون اور محمد کو راہ خدا میں قربان نہ کرتیں، اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسین کے ساتھ یزیدیت کے خلاف سینہ سپر نہ ہوتیں تو آج مسلمانوں کی حالت مختلف ہوتی یزیدیت کا پر چار ہوتا۔
یقینا آ پ کے صبر و استقلال، جرات و بہادری، استقامت، عبادت، ایثار اور جہاد کے جذبے کی بدولت آج اسلام کا نام زندہ ہے بے شک! ”اسلام زندہ ہو تا ہے ہر کربلا کے بعد ” آپ نے اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسین کے ساتھ مکہ سے مدینہ اور پھر وہاں سے کربلا کا سفر معمولی سمجھ کر طے کیا صرف اور صرف اسلام کی خاطر، مسلمانوں کی خاطر، حق کی خاطر۔ حضرت بی بی زینب کے روضہ مبارک کو نقصان پہنچانے کے بعد، عہد نبوت، عہد صدیقی اور عہد فاروقی میں مختلف معرکوں سے لشکر اسلام کی قیادت کرنے والے سیف اللہ کا لقب پانے والے عظیم صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خالد بن ولید کے مزار شریف پر بھی مزائل داغے گئے۔
حضرت خالد بن ولید وہ عظیم اور بہادر صحابی اور مجاہد ہیں جنہوں نے اپنی وفات کے وقت فرمایا تھا کہ”میں نے تقریبا تین سو جنگیں لڑیں،میرے جسم کے ہر حصے پر کہیں تلوار، کہیں نیزے اور کہیں تیر کا زخم ہے مگر شہادت سے محروم رہا، آج بستر پر مر رہا ہوں، اللہ رب العالمین بزدلوں کو کبھی چین نصیب نہ کرے” وہ خالد بن ولید ہی تھے جن کی عسکری فہم و فراست اور شجا عت کی بدولت ملک شام مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا اور ہر قل جو خود کو دنیا کا کبھی نہ ختم ہو نے والا شہنشاہ سمجھتا تھا اس کو شکست فاش دی، اس قدر بہادر اور اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف کر دینے والے صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! صد افسوس کہ آج ہم مسلمان آپس کی خلفشاریوں میں الجھے ہو ئے ہیں اور دشمن ہماری صفوں میں گھس کر ہمیں کمزور کر رہا ہے۔
Hazrat Khalid bin Waleed (R.A)
مسلمان خانہ جنگیوں کا شکار ہیں اور دشمن اپنے عزائم کو زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہے، ہماری غیرت و حمیت جاگتی کیوں نہیں، تاریخ کے اس بد ترین واقعے کی شدید انداز میں نہ ہی کوئی مذمت کی گئی، اور نہ ہی اقوام متحدہ میں باغیوں کے خلاف کسی قسم کا احتجاج ریکارڈ کروایا گیا، اور نہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی حرکت میں آئی سمجھ سے بالا تر ہے یہ بات کہ اس قدر بے بسی آ خر کیوں؟ حالانکہ یہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ، پورے عالم اسلام کی مشترکہ تذلیل کی گئی، یہ صرف مزارات پر حملہ نہیں بلکہ ہمارے ایمانوں پر حملہ ہے، ہمیں یہ باور کروایا گیا ہے کہ ہم کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں اس قدر کمزور کہ اب جب کوئی چاہے ہمارے اسلاف، ہمارے مذہب پر حملہ کر سکتا ہے۔
کیا اب مسلمانیت اور مسلمانوں کے اسلاف کے ورثے کی حفاظت کے لئے مرد مجاہد سلطان صلاح الدین ایوبی آئے، محمد بن قاسم آئے، عماد الدین زنگی کو آنا پڑے گا، کیونکہ ہمہ وقت مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے اسلام مخالف قوتیں سر گرم ہیں اور مسلمان اس قدربد مست ہو چکے ہیں کہ دشمن کی چا لوں سے نا واقف! برما میں میں مسلمانوں کی تذلیل، مساجد، عبادت گاہوں کو شہید کیا جا رہا ہے، اور پھر بھی دہشتگردی کا لیبل مسلمانوں پر لگا ہوا ہے کیا دہشت گردی صرف مسلمانوں ہی کے لئے مخصوص کر دی گئی ہے کہ دوسرے مذہب والے جب کوئی دہشتگردانہ کا روائی کریں تو وہ پر امن ہی کہلائیں گے۔
اس تاریخ کے بدترین واقعے کے سے پہلے بھی مسلمانوں کے مقامات ِ مقدسہ کو شدید نقصانات پہچائے گئے جو کہ نہایت ہی غور طلب بات ہے اسلام مخالف قوتیں بخوبی جانتی ہیں کہ وہ براہ راست مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لئے وہ اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں لہذا ضرورت اس امرکی ہے کہ تمام امت مسلمہ ”ایک ہو جائیں” اور ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے جو ان حالیہ واقعات کی پُر زور مذمت کرے اور عالمی سطح پر اس جیسے واقعات کو روکنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرے تاکہ مستقبل میں ایسی کسی بھی قسم کی حرکت کی کوئی جسارت نہ کر پائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تمام مسلمان یک جان ہو کر تمام تضادات اور فرقہ واریت سے پاک ہو کر فیصلہ کریں گے۔