پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے اس اعتراف کے بعد اب کسی کو کوئی شک باقی نہیں رہنا چاہیے کہ نام نہاد جمہوری حکومتوں کی اسمبلیاں کفن چور وں کا مرکز رہی ہیں اور موجودہ حکومت نے تو کفن چوری کے ساتھ ساتھ مردوں کو ڈنڈے بھی دینا شروع کر دیے ہیں انہی جمہوری آمروں نے حب الوطنی کی آڑ میں عوام کا وہ حشر کر دیا ہے جو شائد دشمن نہ کرسکتا تھا قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے الفاظ قومی اسمبلی کی در و دیوار پر کچھ اسطرح نقش ہوگئے ہیں وہ رہتی دنیا تک چیخ چیخ کر کہتے رہیںگے کہ جنہیں تم لوگوں نے اپنی تقدیریں بدلنے کے لیے یہاں بھیجا تھا آج انکی اصلیت بھی دیکھ لو جو حقیقت خورشید شاہ کے منہ سے نکلی وہ کچھ اسطرح تھی کہ ہم پر مہنگائی کرکے مردوں کے کفن چوری کا الزام تھا (ن) لیگ تو ہم سے دو ہاتھ آگے نکل گئی انہوں نے تو کفن چوری کے بعد ڈندے سے مردوں کی توہین بھی شروع کر دی خورشید شاہ کی اس مثال پر ایوان میں خوب قہقے لگے۔
حیرت ،افسوس اور شرمندگی کی انتہا یہ ہے کہ کفن چور جیسا لقب ملنے پر پورا ایوان قہقے لگاتا رہا اور افسوس کرنے والا کوئی ایک بھی نہیں تھا ان جمہوری حکومتوں کے ماتھے پر کوئی ایسا کارنامہ نہیں ہے کہ جس پر یہ فخر کر سکیں میں واضح کرتا چلو کہ آمریت اور فوجی حکومت کے میں قطعن حق میں نہیں ہوں مگر آج تک ملک میں جتنی ترقی ہوئی وہ فوجی دور حکومت میں ہوئی ہر فوجی آمر جب حکومت میں آیا تو وہ عوامی لیڈر بن گیا۔
جب بھی جمہوری نظام کی وجہ سے کوئی بھی عوامی شخصیت اقتدار میں آئی تو وہ عوام سے دور ہوتی چلی گئی پچھلی حکومتوں نے تو جو گند پھیلانا تھا وہ پھیلا دیا اور عوام کو جس غربت کے گڑھے میں پھیکنا تھا وہ پھینک دیا اب ہم نے تو موجودہ حکومت کو دیکھنا ہے کہ جس نے سہانے خواب دکھا کر عوام کی راتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں ملک میں اس وقت ٹماٹر 2 سو روپے کلو فروخت ہورہا ہے مہنگائی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی آٹا بھی غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہوتا جارہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ (ن) لیگ کی حکومت میں فی کلو آٹا 50 روپے ہو جائیگا، بجلی، پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر دیا جائے گیاملک میں سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے۔
Municipal Elections
سرمایہ کار یہاں سے دوسرے ممالک میں جا رہے ہیں اور اس وقت ملک میں چالیس لاکھ نوجوان بیروزگار ہیں، سٹیل ملز، پی آئی اے، نیشنل بینک سمیت دیگر اداروں کی نجکاری کے منصوبے بنائے جارہے ہیں پی ٹی سی ایل ایک منافع بخش ادارہ تھا اس کی نجکاری کر دی گئی یہاں حکمرانوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے سب اپنی اپنی عیاشیوں میں مصروف ہیں کرپشن اور چور بازاری نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کردیا ہے ہم اپنے خلاف ہونے والے ظلم پر بھی اب احتجاج نہیں کرتے کیونکہ جنہوں نے یہ سب لوٹ مار کا کھیل رچایا ہوا ہے انکے ساتھ ہمارے مفادات وابستہ ہیں ایک طرف عوام کو اس بحث میں الجھا دیا گیا ہے کہ شہید کون ہے اور دہشت گرد کون ہے تو دوسری طرف عوام کو بلدیاتی الیکشن کا جھانسہ دے رکھا ہے۔
اگر بلدیاتی الیکشن سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق کروادیے جائیں تو کوئی قیامت نہیں آئے گی پاکستانی ہی الیکشن لڑیں گے اور وہی ممبر بنیں گے مگر ناجانے حکومت سمیت باقی تمام جماعتوں کو کیا تکلیف ہے کہ اس معاملہ کو بھی باقی کے معاملات کی طرح ایک مسئلہ بنا دیا ہے شائد حکومت کی بہتری بھی اسی میں ہے کہ عوام کو جتنا زیادہ مقامی مسائل میں الجھایاجائے اتنا ہی اس کے لیے بہتر ہوگا اور رہی بات اپوزیشن جماعتوں کی تو وہ بات سید خورشید شاہ نے سب پر واضح کردی کہ سب کفن چور ہیں جو مرنے کے بعد بھی مردے سے اسکی آخری چیز کفن بھی اتار لیتے ہیں تو پھر ایسے حکمرانوں سے دوران زندگی خیر کی امید کیا رکھی جاسکتی ہے۔
اب تو مرنے کے بعد کی فکر کرنا چاہیے کہ قبر کا وقت خیر خیریت سے گذر جائے غریب انسان زندگی میں تو روٹی کے لیے تگ و دو کرتا ہی ہے ساتھ ساتھ اپنے پیاروں کو زندہ رکھنے کے لیے بھی بھاگ دوڑ کرتا ہے اب اسکی ذمہ داریاں اور بڑھ گئی ہیں جہاں دن کے وقت وہ اپنے زندہ رہے والوں کے لیے بھاگ دوڑ کریگا وہیں پر اب رات کو قبرستانوں میں اپنے پیاروں کے کفن کی بھی رکھوالی کریگا کہ کہیں کوئی حکومتی نمائندہ قبر میں سے کفن ہی نہ چرا لے یہ سب چور ہمیں جمہوری حکومت نے تحفے میں دیے ہیں جن سے جان چھڑوانا ہماری سب کی ذمہ داری ہے صرف وہی ان چوروں کو اچھا کہیں گے جن کا رزق ان چوروں کے ساتھ منسلک ہے۔