تحریر: مہر بشارت صدیقی پنجاب کے صوبائی وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کے ڈیرے پر خود کش حملے سے صوبائی وزیر سمیت 19 افراد شہید ہو گئے۔ دھماکے کے بعد علاقہ بھر میں کہرام مچ گیا۔ اٹک دھماکے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق زیادہ تر ہلاکتیں ملبے میں دبنے کے باعث ہوئی۔ دھماکے میں بال بیرنگ اور نٹ بولٹ کا استعمال نہیں کیا گیا۔
اٹک دھماکے کا تحقیقاتی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ تمام شواہد اکھٹے کئے جا رہے ہیں جس میں عینی شاہدین کے بیانات، انسانی اعضاء، بارود کی قسم اور خود کش بمبار کے جسم کے ٹکڑے شامل ہیں۔ اس خود کش بم دھماکے میں گزشتہ بم دھماکوں کی طرح بال بیرنگ اور نٹ بولٹ کا استعمال نہیں کیا گیا بلکہ یہ نئی طرح کا خود کش دھماکا تھا۔ خود کش بمبار نے خود کو ستون کے قریب کھڑے ہو کر دھماکا کیا جس کے باعث عمارت منہدم ہو گئی۔ لاشوں پر نٹ بولٹ اور بال بیرنگ کے نشانات نہیں ملے بلکہ عمارت کے ملبے میں دبنے کے باعث اموات واقع ہوئیں۔ دھماکے میں شہید ہونے والے وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزدہ اور ڈی ایس پی شوکت شاہ کی نماز جنازہ اٹک پولیس لائن میں ادا کی گئی۔
نماز جنازہ میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک، وزیر داخلہ چودھری نثار، آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا، وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد، ڈی آئی جی راولپنڈی وصال فخر سلطان راجہ اور دیگر ایم این ایز، ایم پی ایز اور افسران نے شرکت کی۔ شہباز شریف نے وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزادہ اور ڈی ایس پی شوکت شاہ کی میتوں پر پھول رکھے۔ وزیر داخلہ شجاع خانزاہ کی نماز جنازہ آبائی گاؤں شادی خان گرلز سکول میں بھی ادا کر دی گئی جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد شجاع خانزادہ شہید کو ان کے آبائی گائوں شادی خان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے سانحے پر صوبے بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے اٹک حملے کی مذمت کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ سمیت 19 قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور دہشتگردی کیخلاف مزید پختہ عزم کا اعادہ کیا ہے۔صدر مملکت، وزیراعظم اور آرمی چیف نے واضح کیا ہے کہ ایسے واقعات دہشتگردی کے خلاف قوم کا عزم کمزور نہیں کر سکتے۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہر صورت دہشتگردی کا خاتمہ یقینی بنائیں گے۔وزیراعظم نواز شریف نے اٹک دھماکے کو بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ شجاع خانزادہ جیسے ہیروز کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ،دہشتگردوں کو نیست و نابود کردینگے۔سابق صدر آصف علی زرداری نے دہشتگردی واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے بزدلانہ کارروائی قرار دیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ملک سے دہشتگردی کے مکمل خاتمہ کیلئے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ دہشتگردی اور انتہاء پسندی کے خاتمے کے لئے نیشنل ایکشن پلان پر بھرپور طریقے سے عمل کرنا ہو گا۔ گورنر سندھ عشرت العباد نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو فون کرکے شجاع خانزادہ کی شہادت پر اظہار افسوس کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے بھی دھماکے کی شدید مذمت کی۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز نے کہا کہ شجاع خانزادہ بہادر انسان تھے ، دہشتگردوں کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔ مریم نواز نے ٹوئٹ کیا کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ،”شجاع خانزادہ تیری جرات کو سلام”۔اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور حافظ محمد سعید نے بھی واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا۔وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کا کہناہے کہ صوبائی وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ کی شہادت سے ملک سچے پاکستانی اور وطن پر جان چھڑکنے والے سیاستدان سے محروم ہو گیا ہے۔
Shuja khanzada Attack
میں کرنل (ر) شجاع خانزادہ کی شہادت کے صدمے کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ وہ میرے عزیز ساتھی تھے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گرانقدر خدمات سر انجام دیں جنہیں قوم کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ کرنل (ر) شجاع خانزادہ دیانت، محنت اور جرات کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھے۔ دہشت گردی کے عفریت کے خلاف ہماری جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی اور سفاک قاتل اپنے عبرتناک انجام سے بچ نہیں سکیں گے۔ وزیر اعلیٰ نے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیدیا اور آئی جی سے رپورٹ طلب کر لی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق صوبہ پنجاب کے انسداد دہشت گردی کے محکمے کے ایک اہلکار کے مطابق صوبے بھر میں کالعدم اور شدت پسند تنظیموں کے جاری آپریشن کو تیز کرنے کے بعد صوبائی وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ کو دھمکیاں زیادہ ملنا شروع ہوگئی تھیں۔ چند ہفتے قبل جنوبی پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ میں کالعدم تنظیم کے رہنما ملک اسحاق اور دیگر تیرہ افراد کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد صوبائی وزیر داخلہ کو مزید محتاط رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اہلکار کے مطابق صوبائی وزیر داخلہ نے اپنے آبائی علاقے میں کالعدم تنظیموں کے متحرک ہونے کے بارے میں بھی انسداد دہشت گردی کے محکمے کو آگاہ کیا تھا جس کے بعد محکمے کے ذمہ داران افراد نے اس علاقے میں کارروائی کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔اٹک واقعہ کے بعدپنجاب بھر میں بڑا سرچ آپریشن بھی شروع کردیا گیا ہے اور مشتبہ گروہوں کے مخصوص ٹھکانوں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔
سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے اس بات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ صوبائی وزیر داخلہ کے حفاظتی انتظامات میں وہ کونسی خامیاں تھیں جن کی وجہ سے اس سانحہ کو نہ روکا جا سکا۔ حساس اداروںنے اٹک خودکش دھماکے کے ماسٹر مائنڈ تک پہنچنے کیلئے فوری طور پر تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ مختلف پہلوئوں پر غور شروع کرکے کالعدم تنظیموں کے بارے میں تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کالعدم لشکری جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کی دو بیٹوں اور 14 دہشت گرد ساتھیوں سمیت پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد صوبائی وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ پر خودکش حملے کو خصوصی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ کے ہمراہ مارے جانیوالے تنظیم کے سیکرٹری اطلاعات کے بیان کی روشنی میں 16 رکنی ڈیتھ سکواڈ کے بارے میں معلومات اور اسکی تلاش کا کام بھی بدستور جاری ہے۔ واقعہ کے بعد اٹک، حضرو، حسن ابدال اور گردونواح کے علاقوں میں کریک ڈائون تیز کردیا گیا اور مشکوک افراد کو حراست میں لیا جارہا ہے۔
پنجاب کے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کو ڈیرے پر حملہ کر کے نشانہ بنانیکا یہ پہلا واقعہ نہیں، دہشت گردوں نے اس سے پہلے بھی ڈیروں پر خود کش حملے کر کے کئی سیاسی رہنماوں کی جانیں لیں۔ 17اکتوبر 2013 کو ڈیرہ اسماعیل خان کلاچی میں خود کش حملے میں پی ٹی آئی کے وزیر قانون اسرار گنڈا پور سمیت 8 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے ، 2 دسمبر 2009 کو مینگورہ سوات میں اپنے حجرے میں عید ملتے ہوئے خود کش حملے میں اے این پی کے رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر شمشیر جاں بحق، 6اکتوبر 2008 کو بھکر میں رکن قومی اسمبلی رشید اکبر نوانی کے ڈیرے پر خودکش دھماکے میں 20 افراد جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہوئے ، رشید نوانی رش کی وجہ سے بچ گئے۔ 25 مئی 2015 کو لیاری میں صوبائی وزیر کچی آبادی جاوید ناگوری کے ڈیرے پر حملہ ہوا، جس میں جاوید ناگوری کے بھائی جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے۔