سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت سے سابق آرمی چیف راحیل شریف اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا کی بیرون ملک نوکریوں کے حوالے سے وضاحت طلب کر لی ہے۔ آیا سپریم کورٹ فوجی جرنیلوں کا احتساب کر پائے گی؟
Shuja Pasha and Raheel Sharif
پاکستان کے زیادہ تر سیاست دانوں کے خیال میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اس وقت ملک میں بہت طاقتور ہو چکی ہے اور کوئی ادارہ بھی اس کا احتساب نہیں کر سکتا۔ اس حوالے سے جب ڈوئچے ویلے نے پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما عثمان کاکڑ سے پوچھا تو انہوں نے کہا، ’’سینیٹ میں دو یا تین مرتبہ جنرل راحیل کی نوکری کا معاملہ اٹھایا گیا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے حکومت نے کہا تھا کہ وہ خود گئے ہیں، سعودی عرب اور حکومت نے ان کو کوئی این او سی نہیں دیا تھا۔‘‘
جب انہیں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ نے اس مسئلے کا نوٹس لیا ہے اور جنرل پاشا کی نوکری کے حوالے سے بھی وضاحت طلب کی ہے۔ تو کیا ان کے خیال میں ماضی کے ان طاقتور عہدیداروں کے خلاف کوئی ایکشن ہوگا یا ان کا احتساب ہوگا ؟ تو عثمان کاکڑ نے کہا، ’’اسٹیبلشمنٹ نے کھلے عام سیاست میں مداخلت کی اور انتخابات میں دخل اندازی کی۔ کیا ان کے خلاف کو ئی ایکشن ہوا۔ یہ صرف دکھاوا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ جنرلوں کا کوئی احتساب ہوگا۔‘‘
دفاعی و فوجی امور پر گہری نظر رکھنے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم بھی عثمان کاکڑ کے اس موقف کی تائید کرتے ہیں، ’’قانون کے مطابق ایک سرکاری ملازم کو متعلقہ ادارے سے این او سی لینی ہوتی ہے، جس کے لئے وہ خود پہلے درخواست دیتا ہے۔ لیکن جنرل راحیل نے تو کوئی درخواست نہیں دی۔ وہ تو پہلے سعودی عرب گئے اور پھر انٹرویو ہوا اور پھر حکومت کو این او سی جاری کرنی پڑی۔ یہ صرف ایک جنرل کا مسئلہ نہیں ہے۔ جنرل پاشا نے بھی بیرونِ ملک نوکری لی اور جنرل جہانگیر کرامت ریٹائرڈ ہونے کے فورا بعد امریکا چلے گئے اور وہاں ایک تھنک ٹینک میں نوکری اختیار کر لی۔ تو ان لوگوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہو گا۔ ریکارڈ خود فوج کے لوگوں کو پیش کرنا ہوگا۔ وہ پیش کریں گے اور عدالت کہے گی کہ ہم اس جواب سے مطمئن ہیں۔ اور اس کے بعد معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔ لیکن میں یہ بتاوں کہ ہم ریکارڈ کا جائزہ لیں گے اور پھر اس پر ایکشن لینے کا سوچیں گے۔‘‘
بیرونِ ملک نوکری کے حوالے سے مختلف مکتبہء فکر کے لوگوں کی رائے بھی منقسم ہے۔ جہاں کرنل انعام الرحیم کے خیال میں این او سی ضروری ہے، وہاں تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کے خیال میں دو سال کی پابندی سیاست میں حصہ لینے کے حوالے سے ہے۔ اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو کو اپنی رائے دیتے ہوئے جنرل امجد نے کہا، ’’میرے خیال میں یہ پابندی سیاست میں حصہ لینے کے لئے ہے، جہاں تک راحیل شریف کا تعلق ہے تو انہیں حکومت نے این او سی جاری کی تھی۔ محمد بن سلمان نے جب وزیرِ دفاع کے طور پر پاکستان کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے نواز شریف حکومت سے گزارش کی تھی کہ راحیل شریف کی خدمات چاہئیں، جس پر حکومت نے این او سی جاری کی تھی۔ شروع میں جی ایچ کیو نے اجازت نہیں دی تھی لیکن بعد میں جنرل باجوہ کے دورے کے بعد یہاں سے بھی اجازت مل گئی تھی۔ اور راحیل شرف نے اس شرط کے ساتھ ذمہ داری لی تھی کہ یہ فوج کسی مسلم ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی اور یہ کہ اس فوج کے استعمال کے حوالے سے فیصلہ کوئی ایک ملک نہیں بلکہ اتحاد میں شامل ممالک کے وزرائے دفاع کی کونسل کرے گی۔‘‘
جنرل امجد کے خیال میں جنرل راحیل شریف نے کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ احتساب کی بات کی جائے،’’یہ مسئلہ وہ لوگ اٹھا رہے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ راحیل شریف کی طرف سے کمان لینے پر پاکستان اور ایران کے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ پاکستان نے ایران اور سعودی عرب دونوں ممالک سے تعلقات بہتر کئے ہیں۔ تہران نے بھارت سے اسٹریٹیجک معاہدہ کیا ہے۔ پاکستان نے تو اس پر اعتراض نہیں کیا۔ بالکل اسی طرح اگر پاکستان کسی ملک سے آزدانہ طور پر بہتر تعلقات استوار کرتا ہے تو کسی دوسرے ملک کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
جنرل امجد نے اس بات کی تردید کی کہ جنرل پاشا نے متحدہ عرب امارات میں کوئی نوکری لی ہے، ’’میری اطلاعات کے مطابق وہ اپنے بیٹے کے کسی کام کی وجہ سے متحدہ عرب امارات گئے تھے اور انہوں نے وہاں کوئی نوکری نہیں لی تھی۔ اور اب سپریم کورٹ میں اس حوالے سے وہ وضاحت بھی کر دیں گے۔ وہ پاکستان میں تھے اور اب بھی یہیں موجود ہیں۔‘‘