’سیلاب جو ساری متاع بہا لے گیا‘

Flood

Flood

سیالکوٹ (جیوڈیسک) سیالکوٹ کے اللہ رکھا کی زندگی کا کل سرمایہ اس کے سات مویشی تھے جو حالیہ سیلاب میں ہلاک ہوگئِے۔ ان سے میری ملاقات چپراڑ کے راستے میں ہوئی جہاں وہ سیلاب زدگان کے ایک مجمعے میں دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ انھوں نے بتایا ’چار برسوں سے بہت محنت کی، سائیکل بیچی تب جا کے یہ سات مویشی خریدے تھے جو سیلاب میں مارے گئے۔ دو بیٹیاں چار پوتے پوتیاں ہیں اور خدا کی ذات ہے۔ اب امردو بیچ کے گذارا کررہا ہوں لیکن کوئی حال نہیں ہے۔‘

بھارت کی سرحد سے منسلک پاکستان کے سرحدی علاقہ سیالکوٹ میں حالیہ سیلاب نے شدید تباہی مچائی ہے۔ مقام افراد کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے مبینہ طور پر اچانک سیلابی پانی چھوڑا گیا جس کی وجہ سے چاول کی فصل منوں مٹی تلے دب کے تباہ ہوگئی ہے، متعدد مویشی ہلاک ہوگئے، مویشیوں کا چارہ بہہ گیا یا خراب ہوگیاہے اور اُن کے گھروں میں عام سے لے کر نایاب سامان خراب ہو گیا ہے۔

سیلابی پانی سیالکوٹ کے نہ صرف دیہی بلکہ شہری علاقوں میں ایک ہفتے تک کھڑا رہا۔ اِس دوران لوگو ں نے کثیر منزلہ گھر رکھنے والے رشتہ داروں، دوستوں اور پڑوسیوں کے گھروں، اونچے ٹیلوں اور درختوں غرض جہاں جگہ ملی ٹھکانہ بنالیا۔اب جبکہ پانی اُتر چکا ہے تو متاثرین نے اپنے گھروں کا رُخ کیاہے اور وہاں اپنی فصلوں، مال مویشی، گھروں اور سامان کو پہنچنے والے نقصان پر افسردہ اور پریشان ہیں۔

سیالکوٹ شہر میں داخل ہونے والا کئی فُٹ سیلابی پانی کئی روز تک جوں کا توں کھڑا رہا جس سے ایک طرف لوگوں کے گھروں میں روز مرہ کی اشیاء اور راشن خراب ہوگیا بلکہ کئی لڑکیوں کے جہیز بھی بہہ گئے یاخراب ہوگئے۔
اس کے علاوہ سے روزانہ کی دیہاڑی لگانے والے مزدورں سمیت چھوٹے کاروبار کرنے والے افراد کی دکانوں اور فیکٹریوں میں لگی مشینری کو بھی نقصان پہنچاہے۔ شہر سے دیہاتوں کو جانے والی رابطہ سڑکوں اور پُل ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں جبکہ انہی ٹوٹی سڑکوں پر بجلی کی تاریں بکھری پڑی ہیں۔
تحصیل سیالکوٹ کے مختلف علاقوں بجوات اور چپراڑ جاتے ہوئے راستے میں آپ کو ایسے کئی لوگ موٹر سائیکل، رکشے اورگدھا گاڑیاں گھیسٹتے نظر آئیں گے۔

ایسی ہی دوگدھا گاڑیوں پر 20 کلو کی گیس والے سلینڈر لدے تھے اور راستہ خراب ہونے کے سبب میرے سامنے اِن میں سے دو لڑھک کر پانی میں جاگرے۔ آٹھ مزدور اُسے اُٹھانے دھرنے میں مصروف تھے کہ میں نے پوچھا ’اضافی محنت کی کوئی مزدوری ملے گی‘۔ کہنے لگے ’ کہاں جی وہی دو سو روپے۔‘

آگے جاکر میری ملاقات بجوات جانے والے ایک مسافر سے ہوئی جو سبزی سے لدی گاڑی کھینچنے میں مصروف تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ’سیلاب کے بعد سبزیاں مشکل سے ملتی ہیں اور کافی مہنگی بھی ہوگئی ہیں۔‘ اِن علاقوں میں سیلابی پانی سے بنیادی صحت کے مراکز اور سکولوں کی عمارتیں بھی مخدوش ہوگئی ہیں۔ گورنمنٹ گرلز اینڈ بوائز پرائمری اسکول کے ماسٹر محمد مجید نے بتایا کہ ’بچے باقاعدگی سے سکول آنا شروع ہوگئے ہیں۔ سکول کا تمام ریکارڈ بہہ گیا ہے جبکہ سکول کی چھت اور دیواریں نازک حالت میں ہیں اسی لیے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ دو کمروں کا پکا گھر لے کر جاری رکھنے پر کوشش جاری ہے۔‘

سیالکوٹ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں حکام کی جانب سے ریلیف کے کام کہیں دیکھنے کو نہ ملے البتہ بعض فلاحی تنظیمیں میڈیکل کیمپ اور کھانا وغیر فراہم کرتی ہوئی نظر آئیں۔