لاہور (اصل میڈیا ڈیسک) پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ واقعے میں ملوث تمام مرکزی ملزمان گرفتار ہیں اور ان کی شناخت بھی ہوچکی ہے جب کہ آئی پنجاب نے پولیس کی کوتاہی کا امکان خارج کر دیا۔
آئی جی پنجاب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان پنجاب حکومت نے بتایا کہ سیالکوٹ واقعے میں ملوث 118 گرفتار ملزمان میں 13 مرکزی ملزم شامل ہیں، ان تمام مرکزی ملزمان کی شناخت ہو چکی ہے، واقعے سے متعلق 160 کیمروں کی فوٹیج لی گئی ہے اور گرفتاریوں کے لیے 10 ٹییمیں بنائی گئی ہیں جب کہ واقعے کے مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات شامل ہیں، آر پی او اور ڈی پی او 24 گھنٹے چھاپوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔
حسان خاور کا کہنا تھا کہ ابتدائی رپورٹ یہی ہے کہ موقع سےایک چیز ہٹائی گئی تھی اور واقعے کی پولیس کو جب پہلی اطلاع ملی تو ہلاکت ہوچکی تھی، پولیس اور انتظامیہ واقعے کی مکمل تحقیقات کر رہی ہیں، ایسے واقعات ہمارے لیے اور ہمارے ملک کےلیے شرمندگی ہے۔
ترجمان پنجاب حکومت نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے سری لنکن شہری کی فیملی پاکستان میں نہیں ہے۔
آئی جی پنجاب کی گفتگو اس موقع پر آئی پنجاب نے کہا کہ واقعے کی اطلاع ملنے پر مقامی پولیس نے فوری طورپر حکام کوآگاہ کیا، ڈی پی او اور ایس اپی پیدل چل کر وہاں پہنچے، واقعے کے بعد راستے بلاک تھے اس میں پولیس کی کوتاہی ثابت نہیں ہوئی، اگر واقعے میں پولیس کی کوئی کوتاہی ہوئی تو اس کا جائزہ لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ واقعے میں سارے ملزم تو قاتل نہیں ہر ملزم کا کردار طےکیا جائےگا اور تفتیش میں طے کریں گے کس ملزم کا کیا رول تھا، ابھی تک جتنی تحقیقات ہوئیں سب بتائی جاچکیں، اب تک جو کچھ کیا ہے اس کی تفصیلات شیئر کررہے ہیں، 160 فوٹیجز کی روشنی میں گرفتاریاں کی جائیں گی۔
پسِ منظر خیال رہے کہ گزشتہ روز 3 دسمبر کو اسپورٹس گارمنٹ کی فیکٹری کے غیر مسلم سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا پر فیکٹری ورکرز نے مذہبی پوسٹر اتارنے کا الزام لگا کر حملہ کردیا، پریانتھا کمارا جان بچانے کیلئے بالائی منزل پر بھاگے لیکن فیکٹری ورکرز نے پیچھا کیا اور چھت پر گھیر لیا۔
انسانیت سوز خونی کھیل کو فیکٹری گارڈز روکنے میں ناکام رہے، فیکٹری ورکرز منیجر کو مارتے ہوئے نیچے لائے ، مار مار کر جان سے ہی مار دیا، اسی پر بس نہ کیا، لاش کو گھسیٹ کر فیکٹری سے باہر چوک پر لے گئے، ڈنڈے مارے، لاتیں ماریں اور پھر آگ لگا دی۔