پچھلے دِنوں سیالکوٹ کے جلسے عام میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک اِنصاف کے سربراہ مسٹرعمران خان المعروف مسٹرسونامی نے جس انداز سے یہ کہتے ہوئے انکشاف کیا کہ”11 مئی کو الیکشن نہیں پاکستان کا سب سے بڑافراڈہوا”جہاں عمران خان کے اِس جملے نے قوم کی آنکھیں کھولی دیں تو وہیں آج قوم یہ بھی سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ عمران خان نے یہ کہنے میںایک سال کا عرصہ کیوں لگا دیا ہے…؟ اگر ایساہی کچھ تھاتو خان صاحب کو ابتدائی چندایک ماہ میں ہی کہہ دینا چاہئے تھا۔
اور اَب یہ ایک سال اور چندماہ بعد یہ سب کچھ کیوں اور اِس کے اشارے پر کہہ رہے ہیں ..؟ آج کہیں یہ ایساکچھ اِس لئے تو نہیں کہہ رہے کہ پہلے اِنہوں نے حکومت کو ڈھیل دے کرکسی قسم کی ڈیل کرنے کی کوشش کی ہوگی مگر جب اِن کی دال نہیں گلی تو پھر یہ وہ سب کچھ کہے ڈال رہے ہیں جِسے یہ پہلے اپنے سینے میں دبائے رکھناچاہ رہے تھے اور جب کچھ نہیں بناتو اَب پھٹ پڑے ہیں اور اپنی ہر میٹنگ اور اپنی ہر پریس کانفرنس اور اپنے تمام بڑے چھوٹے جلسے جلوسوں کو اپنے ایک ہی ایجنڈے” الیکشن دھاندلی ”سے آگے بڑھاکر اِنہیں کامیاب تصورکرنے کی ٹھان لی ہے آج ایسے میں قوم یہ سوچ رہی ہے کہ کیا عمران خان المعروف کو الیکشن دھاندلی کے ایجنڈے سے آگے بھی کچھ سوچنا چاہئے یابس یہی اِن کی سیاست کا محور ہے۔
اگرچہ یہ ٹھیک ہے کہ گزشتہ کئی انتخابات سے ہمارے یہاں یہی ہورہاہے کہ ایک مرتبہ پی پی پی والے حکومت کریں گے اور پھر دوسرے انتخابات میں کسی بھی طرح پی ایم ایل (ن) اقتدار میں آجائے گی،اور یوں یہ ایک دوسرے کا کا ندھاتھپتپاتے اپنے اپنے اقتدارکی مدت پوری کریں گے اَب اتناتو قوم بھی سمجھنے لگی ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ ایسا ہونا اِس کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے، اَب اگرایسے میںقوم مُلک میں کسی تبدیلی کے لئے عمران خان کی جانب بھی دیکھے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایسا عمران خان بھی اقتدارکی صف میں شامل ہوکر نہیں کریں گے..؟ جیساکہ آج پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) والے کررہے ہیں۔
بہرکیف پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ مسٹرعمران خان اپنی طبیعت کے مطابق کچھ جذباتی اور عدم برداشت کے خصلت سے لبریز پرانے اور نئے سیاستدانوں کے ہمراہ مُلک میں جس تبدیلی کے خواہاں ہیں آج اِس اور اِس ہی جیسی تبدیلی کا نعرہ توہر پاکستانی لگارہاہے مگر اِسے پایہء تکمیل تک پہنچانے کے لئے مسٹرسونامی عمران خان کو اپنے سمیت اپنے اُن تمام ساتھیوں اور مُلک بھر میں پھیلے ہوئے اپنے تمام کارکنان کی بھی ٹھیک طرح سے اخلاقی اور سیاسی تربیت ضرورکرنی ہو گی جن میں جذباتی خصلت اور عدم برداشت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھراہواہے۔
اور چونکہ بقول عمران خان مُلک کی کسی بھی مثبت اور تعمیر ی تبدیلی اور لوگوں میں اچھی سوچ پیدا کرنے کے لئے قوم کی نظریں اِن پر مرکوز ہیں تو پھر کیوں نہ عمران خان المعروف مسٹرسونامی کو اپنے اندراور اپنے ساتھیوں کے اندراعتماد،بھروسہ اور مثبت اور حقیقی معنوں میں تعمیری سوچ والے اِنسانوں اور اپنے پُر کھوں جیسے سیاستدانوں والی سوچیں ضرور پیدا کرلینی چاہئں تاکہ قوم کو یہ محسوس ہوجائے کہ ہاں جس اعتماد، بھروسہ مثبت اور تعمیری سوچ والے اِنسان اور سیاستدان کی قوم کوتلاش ہے وہ مل گیاہے۔
Media
آج خواہ حکمران ہوں کہ سیاستدان، میڈیا پرسنزہوں کہ عام پاکستانی گو کہ جس کو دیکھو سب ہی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے اور دست وگریبان ہوتے ایک دوسرے کا سرپھاڑتے نظرآرہے ہیںیعنی یہ کہ عدم برداشت اور جذباتیت کے گمراہ کُن گڑھے میں سب گرے ہوئے ہیں سب بے ہانک کی ہانکنی سے ایک طرف کو بھاگے چلے جارہے ہیں ایسے میں کسی کو کچھ نہیں پتہ ہے کہ اِنہیں کون ..؟اور کیوں اور کدھر کو ہانکے جارہاہے …؟ سب ہی اپنے اپنے مفادات اور جزوقتی فوائد کے حصول کے خاطر ہر وہ کام کرنے پر تلے بیٹھے ہیں جس کا کوئی بھی مذہب اور کوئی بھی مہذب معاشرہ اجازات نہیںدیتاہے۔
ایسے میں آج سب ہی کی یہ کو شش ہے کہ ایک دوسرے پر کیچڑ پھینک کر اِسے ایسا گندا کر دیاجائے کہ اِس کے سیاہ دھبے مدتوں نظرآتے رہیں موجودہ حالات میںمیرے مُلک میں سیاستدانوں اور اینکرپرسنز میںایسی صورتحال وبائی امراض کی شکل اختیارکرگئی ہے،اَب اِن حالات اور لمحات میں قوم یہ سوچ رہی ہے کہ کہاں ہیں اعتماد،بھروسہ ، مثبت اور تعمیری سوچ والے اِنسان اور وہ سیاستدان جو اپنے ایک اشارے پر قوم کی تقدیر اچھی یا بُری کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مگرافسوس ہے کہ ایسے لمحات میں اُنہوں نے بھی مصلحت اور مفاہمت کی چادراُوڑھ رکھی ہے جو کہ قابلِ مذمت ہے آج اِنہیں کھل کر قوم کو سیاسی اور اخلاقی بحرانوں نے نکالنے کے لئے فوراََ سامنے آناچاہئے۔
آج ویسے تو جوبھی اِنسان سانس لے رہاہے وہ زندہ اِنسان کہلارہاہے مگر پھر بھی آج کے اِس پُرآشوب دورمیں اِس یقین کے ساتھ یہ کہنامحال ہے کہ جس کے جسم میں خون رواں دواں اور روح کی شکل میں جو سانس اُوپر نیچے آجارہی ہے ایسا ہر سانس لینے والااِنسانوں کے درمیان ایک اِنسان زندہ ضرورہے مگر اہلِ فکرودانش کے نزدیک اخلاقی ادواراور معاشرتی طورطریقوں کے لحاظ سے زندہ وہ اِنسان ہے جس کی مثبت اور تعمیری سوچ ہواور اِس بنیادپر دوسرے لوگ اِس پر اعتماداور بھروسہ رکرتے ہوں دراصل ایساہی اِنسان ہر زمانے میں زندہ اور پائندہ تصورکیاجاتاہے جبکہ ایسا اِنسان جو زندہ تو ہے۔
مگر اِ س کا د ل اور دماغ مثبت اور تعمیری سوچ سے عاری ہو گیاہووہ کسی بھی صورت میںزندہ اِنسان نہیں کہ لایا جاسکتا ہے اہلِ دانش کی نظرمیں زندہ اِنسان تووہی کہلاتا ہے جس کا دل اور دماغ مثبت اور تعمیری سوچ کا منبع ہواور اِس کی ذات سے اِنسانیت کے فلاح و بہبود کے سوتے پھوٹتے ہوں اور وہ اپنے قول وفعل اور کردار کے لحاظ سے قابلِ بھروسہ اور قابلِ اعتماد اور قابلِ عمل ہوتو ایساہی اِنسان اِنسان کہلانے کا حقدار ہے۔
اہلِ دانش کا خام وعام اور قوی خیال یہ ہے کہ ہرزمانے کے ہر معاشرے کی ہر تہذیب میں ایسے بہت کم ہی لوگ گزرے ہیں کہ جن کا یہ نظریہ رہاکہ غوروفکرکرنااور معاشرے اور تہذیب میں مثبت تبدیلیوں کے خاطر مثبت اور تعمیری انداز سے سوچنا ہی زندگی کی علامت ہے آج اگرہم اپنے زمانے اور معاشرے کے اردگردنظریں گھومائیں تو کیا ہم یہ نہیں سوچ سکتے ہیں ..؟کہ ہمارے درمیان ایسے کتنے افرادہوںگے جو زندگی کو یہ سمجھ کر گزاررہے ہیں کہ اِنہیں جو زندگی ربِ کائنات نے بخشی ہے وہ صرف اور صرف اِس مقصدکے لئے ہی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی مثبت اور تعمیری سوچ کے ساتھ اچھے اور اِنسانیت کی فلاح وبہبود کے کام کریںاور اپنی ذات کو اِنسان اور اِنسانیت کی خدمت کے لئے وقف کریں۔
اگرچہ اِس میںکوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات میں جو لوگ زندگی کو زندگی سمجھ کر صرف اِنسانیت کی خدمت کے لئے ہی گزاررہے ہیں اِنہیں ہی لوگوں نے اپنی زندگی کے دامن میں ایسے انمول اور چمکیلے موتی جمع کرلئے ہیں جس کے بدولت اِنہوں نے اپنی دنیا وی اور آخروی زندگی کو گل وگلزار بنا لیا ہے آج اگرپی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان المعروف مسٹرسونامی بھی مُلک سے کرپٹ نظام اور خاندانی حکمرانوں اور ورثہ دار سیاستدانوں کا خاتمہ کرکے حقیقی معنوںمیں اپنے دامن میں انمول اور چمکیلے موتی جمع کرناہی چاہتے ہیں تو پھر عمران خان کو بلاوجہ دوسروں پرا لزام تراشی کرنے اور اپنے پرائے یاکسی اورکے بہکاوے میںآکر کسی کی عزتیں کھلے عام بازاروں اُوچھالنے سے بھی بازآجاناچاہئے۔
اور 11مئی کے الیکشن کے بعد برسراقتدارجماعتوں کی برائیاں اپنے جلسے جلوسوں اور پریس کانفرنسز میں چیخ کہہ کر گنواکر اِنہیں مظلوم بننے کا بھی موقع فراہم نہیں کرناچاہئے اور سوچ لیناچاہئے کہ 11 مئی کو جو ہواوہ ایک خواب تھا جس کی بُری تعبیرن لیگ کی حکمرانی کی شکل میں عذاب بن کر قو م کو مل رہی ہے اور عمران خان المعروف مسٹرسونامی سمیت مُلک کے دیگر سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو سربراہان کو آئندہ کے لئے کوئی ایسالائحہ عمل اختیارکرناچاہئے کہ اگلے انتخابات سے قبل ن لیگ اور پی پی پی کا مُلک سے ٹھیک طرح سے ڈبہ گول ہوجائے ۔(ختم شُد)
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com