پچھلے کئی عشروں سے پاکستان بارود کے ڈھیر کی طرح پٹاخے مارتا آ رہا تھا آخر کار خدا کے فضل و کرم اور پاک فوج کے عزم و استقلال سے آخر کار دہشت گردی کے عفریت کا خاتمہ ہوا تو زندگی نارمل ہو نا شروع ہوئی۔یہ امن ستر ہزار شہدا کی جانوں کے نذرانے کے بعد حاصل ہوا لیکن امن و سکون کا دورانیہ ابھی زیادہ طویل نہ ہوا تھا کہ ایک نئے عفریت نے سر اٹھانا شروع کر دیا وہ تو معاشرے کا رویہ معاشرتی اقدارکا اظہار سانحہ اسلام آباد میں ظاہر جعفر کا اپنی گرل فرینڈ کو جنسی درندگی کے بعد اُس کے سر کو کاٹ کر اُس سے فٹ بال کھیلنا پھر ایک اور درندہ ایک جوڑے کو پکڑ کر ان کے ساتھ جس طرح جنسی درندگی کر تا ہے اُس نے پاکستانی معاشرے کی اخلاقی پستی بانجھ پن کو دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ابھی ان دونوں واقعات سے اہل وطن فالجی کیفیت کا شکار تھے کہ اچانک یادگار پاکستان پر ٹک ٹاکر لڑکی کا خوفناک واقعہ سامنے آگیا جب سینکڑوں لڑکوں نے اُس لڑکی کے ساتھ جو درندگی فحاشی اور فحش حرکات کیں۔
یہ آندھی کس طرح اخلاقیات اور مذہبی اقدار کا جنازہ نکال رہی تھی اِس لیے ہر پاکستانی خوف و دہشت میں مبتلا ہو گیا کہ ایک نہتی لڑکی کو سینکڑوں اوباش جوان کس طرح اچھال اچھال کر بے حرمتی کر رہے تھے جیسے فٹ بال میچ ہو رہا ہو اِس بد معاش جتھے کو لگام ڈالنے والا کوئی نہ تھا لڑکی کو بچانے کی بجائے سارے تماشائی بن کر ریکارڈنگ کر نے میں مصروف تھے ابھی اِس سانحے کا زخم مند مل نہیں ہوا تھا کہ چند دن پہلے سانحہ سیالکوٹ میں سری لنکن مینیجر مسٹر کمارا کو جس بے دردی بے رحمی سے اُس کی ساری ہڈیاں توڑنے کے بعد اُس کے جسم کی چیر پھاڑ کر نے کے بعد بھی جتھے کی آتش انتقام ٹھنڈی نہ ہوئی اُس کے جسم کا قیمہ اور ہڈیوں کا چورہ بنانے کے بعد اُس کے مردہ جسم پر پٹرول چھڑک کر اُس کی سلگتی چتا میں بدل کر رکھ دیا۔
آپ ماضی کے سانحات اور سانحہ سیالکوٹ کا اگر جائزہ لیں میں حیران کن تکلیف دہ حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ ہمارے معاشرے جوان بے لگام ریوڑ کی طرح آندھی طوفان کی طرح اٹھتے ہیں پھر اپنی عدالت اپنا قانون اپنی سزا لاگو کر کے چیر پھاڑ کر دیتے ہیں ایسا تو جنگلوں میں بھی نہیں ہوتا یا تاریخ انسانی کے تاریک دور میں ہو تا تھا نبی رحمت ۖ کی آمد اور اسلام کے سورج طلوع ہو نے کے بعد اِس طرح کے جذبات اور واقعات کا خاتمہ ہو گیا تھا کیونکہ سورہ مائدہ میں حق تعالی کا فرمان ہے جس نے ناحق کسی انسان کو قتل کیا اُس نے گویا ساری انسانیت کا قتل کر دیا اور بھی سرتاج الانبیاء ۖکی حدیث مبارکہ ہے جس کسی نے کسی دوسرے انسان کو ناحق قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ پائے گا جنت کا حصول تو بہت دور کی بات ہے قرآن مجید اور نبی رحمت ۖ کی حادیث مبارکہ کی تعداد بتانا مشکل ہے جہاں پر حق تعالیٰ اور سرور کائنات ۖ نے انسان کی جان کی اہمیت بتائی ہے اور سختی سے روکا ہے کہ کسی کو بھی ناحق قتل نہ کیا جائے ہمارے محبوب سرور دو عالم ۖ کی زندگی کا آپ لمحہ لمحہ دیکھ لیں آپ ۖ ہر لمحہ سراپا شفقت رحمت ہی نظر آتے ہیں۔
فتح مکہ اور باقی غزوات میں نبی دو جہاں ۖ نے کس طرح دشمنوں کو معاف کیا یہ تاریخ انسانی کا درخشاں باب ہے لیکن پاکستان میں آقا دوجہاں ۖ کے عشق کے دعوے دار کس بے رحمی سے جیتے جاگتے انسان کو بارود کا ڈھیر بنا دیتے ہیں اگر آپ ایسے جتھے کا مشاہدہ یا ریکارڈ اکٹھا کر یںتو پانچ وقت کے نمازی اور متقی پرہیزگار چند بھی نہیں ہو نگے چند جنگجو گروپ نے جتھے کی شکل اختیا ر کی پھر معاشرے کے عام لوگ بھی اُس گروپ میں شامل ہو کر چیر پھاڑ پر لگ جاتے ہیں آپ اگر پاکستانی معاشرے کا بغور مشاہدہ کریں تو تلخ حقیقت سامنے آئے گی کہ ہمارا معاشرہ بارودی معاشرہ بن چکا ہے ہمارے جوان ٹائم بم کی طرح بے لگام پھر رہے ہیں اُن کو جہاں موقع ملتا ہے یہ پھٹ کر معاشرے کے امن اور اخلاقی مذہبی اقدار کا جنازہ نکال دیتے ہیں کیونکہ ریاست اور حکومت اِن جتھوں کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے اِس لیے اِن بے لگام جانوروں کو کسی کا خوف ڈر نہیں ہے اُن کا جہاں دل کر تا ہے بلا خوف خطر ایک ماپ کی شکل اختیار کر کے اپنی عدالت اور فیصلہ سنا دیتے ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ مذہب کی حساس چادر اوڑھ کر یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں قتل کر سکتے ہیں لیکن سانحہ سیالکوٹ کے درد ناک واقعے کے بعد بھی اگر اِس بے لگام ریوڑ کو لگام نہ ڈالی گئی اِن جانوروں کی تربیت نہ کی گئی اِن کو کردار سازی کے عمل سے نہ گزارا گیا تو یہ ایسے جتھے ہمیں وطن عزیز کے ہر شہر اور محلوں میں نظر آئیں گے جو اپنی عدالت اپنے فیصلے اور سزائیں دیتے نظر آئیں گے۔
سانحہ سیالکوٹ کے بعد اقوام عالم حیرت سے ہمیں دیکھ رہی ہے کہ یہ کس دوڑ کے لوگ ہیںجن کو تہذیب چھو کر نہیں گزری اور ہمارے دشمن اول بھارت کو موقع مل جائے گا اب وہ ہر جگہ ہر فورم پر سانحہ سیالکوٹ کو مثال بنا کر پیش کرے گا کہ پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے جہاں پر ایسے گروہ دندناتے پھرتے ہیں جو کسی قانون ریاست حکومت کونہیں مانتے ریاست اور ریاستی قانون نافظ کرنے والے اداروں کو اب جاگ جانا چاہیے ہمارا معاشرہ جو بارود کی سلگتی چتا کا روپ دھار چکا ہے اِس کے محرکات کا مطالعہ کر کے اُن کا سدِ باب کرنا ہو گا نہیں تو اقوام عالم ہمیں دہشت گرد قرار دے کر ہم سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر لیں گے سانحہ سیالکوٹ کے مجرموں کا بلاامتیاز گرفتار کر کے قانون کے شکنجے میں کس کر سزائیں دینی چاہئیں تاکہ آئندہ سر پھروں کے ایسے ریوڑ وں کو انسانی آبادیوں کو پامال کرنے کا موقع نہ ملے۔
اعتدال پسند امن صلح والے علما دین کو ایک منبر پر نفرت تفرقہ بازی کے زہر کا تدارک کرنا چاہیے ہماری مساجد کے علما دین کا ڈیٹا لیا جائے اگر نفرت تفرقہ بازی کرنے والے علما دین کی نشاندہی ہو جائے تو ان کو روکا جائے بلکہ مساجد میں خطبے کی اجازت نیک صالح اور گریجوایٹس کو دی جائے جو تفرقہ بازی کی گولہ باری کرنے تفرقہ بازی کی پنیری کا شت کرنے کی بجائے محبت رواداری پیار و انسانیت کا پرچار کریں ہمارا المیہ یہ بن چکا ہے کہ جب بھی ایسا کوئی درد ناک واقعہ پیش آتا ہے تو چند دن تو ٹی وی شوز اخبارات میں چرچہ رہتا ہے پھر ہم بے حسی بے خبری کے غار میں اُتر جاتے ہیں ہمیں ایسے لوگوں کو سامنے لانا ہو گا جو انسانیت محبت امن رواداری کا پر چار کرتے ہیں نفرت اور تفرقہ بازی کرنے والوں کو رد کر دینا چاہیے عشق رسول ۖ کا حقیقی درس جوانوں تک پہنچانا چاہیے اسلام کا حقیقی رنگ جوانوں کے ذہنوں میں ڈالنا ہو گا اگر سانحہ سیالکوٹ کے بعد بھی چند دن کے بعد ہم نے فراموش کردیا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے چپے چپے پر ہمیں ایسے ہی بارود کے ڈھیر نظر آئیں گے جو ایک چنگاری سے پھٹ کر معاشرے کے امن کو اِسی طرح برباد کردیں گے۔