تحریر : میر افسر امان ہر شخص وہ جن نظریات سے ہم آہنگ ہوتا ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ دنیا کی چیزیں بھی ویسی ہی ہوں جیسے اس کے نظریات ہیں۔ ایسی کچھ بات سبطِ حسن صاحب کی ہے جو ان کی کتاب”انقلابِ ایران” میں ہمیں نظر آئی۔ سبطِ حسن مشہور معروف مارکسی کمیونسٹ تھے۔ ان ہی نظریات کے گردگھومتی درجن سے زائد کتابیں بھی لکھی جن میں، پاکستان کے تہذیبی و سیاسی مسائل، پاکستان میں تہذیب کا ارتقائ، پاکستان نظریات کی جنگ اورمارکس اور مشرق وغیرہ شامل ہیں۔ ١٩١٢ء اعظم گڑھ بھارت میں پیدا ہوئے۔ بھارت میں ایک کانفرنس میں شرکت کرنے گئے تھے تو ١٩٨٦ء میںدہلی میں وفات پائی۔ صاحبو!پہلے دنیا مذہب کے نام سے جانی جاتی تھی۔جیسے ہمیں اسلامی تاریخ سے معلوم ہوتا کہ اسلام کے عروج کے دور میں ایک مشرک قوم تھی جس کے کئی خدا تھے، دوسری روم جوعیسائی تھے جو حضرت عیسیٰ کو خدا مانتے تھے اور تیسری مجوسی تھی جو زرتشت کی پوجا کرتے تھے۔ مذہب تو صرف اسلام ہے جو حضرت آدم سے اللہ نے انسانوں کے لیے منتخب کیا ہے۔ باقی سارے مذاہب لوگوں کے خود گھڑے ہوئے ہیں۔
مذہب کے نام پر ان لوگوں نے اپنی اپنی سلطنتیں بنائی ہوئی تھی۔ ہر بات کو اللہ سے منسوب کر کے لوگوں پر مسلط کر دی جاتی تھی۔ ایسا ہی کچھ برطانیہ میں ہوا۔ بادشاہ یعنی سیاسی رہنما اور کلیسا یعنی مذہبی رہنما کی طویل جنگ ہوئی تھی۔ آخر میں بادشا نے مذہب پر فتح حاصل کر لی اور اس دن سے تھیوکریسی ( مذہبی حکومت)کی (اسطلاح) گھڑی گئی۔ انگریز ہند پر حکمران رہے لہٰذا یہ( اسطلاح) ہمارے بھی رائج ہو گئی۔اسی کولے کرپاکستان کاسیکولرطبقہ لوگوں کو مذہبی حکومت(تھیوکریسی)سے ڈراتارہتا ہے۔تھیوکریسی کے بعد سرمایا دارانہ نظام آیا ۔ اس کے بطن سے ایک مذہب سے بیزار کمیونسٹ نظام آدھی دنیا پر جبر سے راج کرتا رہا۔ کمیونزم کے بانی کے مطابق( نعوذ باللہ) اللہ کے خیال کو دل سے نکال دو۔ مذہب ایک افیون ہے کے فلسفے پر ستر سال قائم رہا۔آخر میں افغانستان میں اسلام نے اسے شکست دی سویت یونین کے پندرہ ٹکڑے ہو گئے۔ آدھا یورپ اس سے آزاد ہوا ۔چھ اسلامی ریاستی آزاد ہوئیں۔ اس تناظر میں سبط ِحسن کی کتاب ” انقلاب ایران” کو دیکھا جائے تو وہ فرماتے ہیں۔ رضا شاہ پہلوی سے شخصی حکومت کا دور شروع ہوا۔ البتہ مجلس شورائے ملی آخر وقت تک قائم رہی۔امریکا پورے ایران کا کرتا دھرتا تھا۔امریکا کی پالیسی کے تحت ایران نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ایران نے١٩٧١ء میں ایرانی شہنشاہت کا ڈھائی ہزار سالہ جشن بڑی دھوم دھام سے منایا۔اس تقریب میںپاکستان سے جنرل یحییٰ اور دنیا کے سربراہان مملکت شریک ہوئے۔
شاہ نے ١٩٧٣ء میںبلوچستان میں میں بھی مداخلت کرتے ہوئے کم از کم تیس ہیلی کاپٹر جس پر توپیں لگی ہوئی تھیں بھٹو حکومت کو بلوچوںکے خلاف استعمال کے لیے دیے تھے۔شاید اسی کے عوض میں زاہدان جانے والی ریلوے لائن ایران کے حوالے کر دی گئی۔ان کے مطابق شاہ رضا پہلوی کی ریاست بورژدار ریاست تھی۔جس کا بنیادی فریضہ سرمایادارانہ نظام کی حفاظت کرنا تھا۔ شاہ نے اپنی حکومت کی حفاظت کے لیے کئی مسلح جھتے بنائے ہوئے تھے، جن میں ساواک سب سے سفاک استبدادی تنظیم تھی ۔ اس نے ایرانیوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ایران میں سوشلسٹ خیالات کی ترویج واشاعت ١٩٠٦ء شروع ہوئی۔ ١٩١٧ء کاسویت یونین کا انقلاب انسانی تاریخ میں ایک نیاباب تھا۔ اس نے ایران پرگہرااثر ڈالا۔رضا شاہ نے ١٩٢٨ء میں کمیونسٹوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔کمیونسٹ پارٹی کو توڑ دیا۔ ٹریڈ یونیوں پر پابندی لگادی۔ کمیونسٹ لیڈر روپوش ہوگئے۔١٩٧٩ء کے خمینی انقلاب کے وقت تودہ پا رٹی کے خلاف قانون تھی جس کے جنرل سیکرٹیری ایرج سنکدری تھے۔تودہ پارٹی کے مارکسٹوں نے خمینی انقلاب کی مدد کی تھی۔ایران کی سب سے بڑی دولت تیل ہے مگر اس کی آمدنی کو عوام پر خرچ نہیں کیا گیا۔
خمینی ٢٠سال سے شاہ کی سامراج با لادستی کے خلاف اسلامی اصولوں کی بنیاد پر لڑتے رہے ۔ شعیہ مذہبی رہنما امام بار گہوں میں شاہ کے خلاف تحریک چلاتے رہے اس میںکمیونسٹ بھی شریک تھے۔سویت یونین اور ایران کے درمیان١٩٢١ء کا معاہدہ موجود ہے۔ایران پیٹر اعظم کی حکومت کے دوران سویت یونین کا حصہ تھا۔ جب انقلاب زوروں پر تھا تو شاہ کا خیال تھا کہ وہ امریکا کو کیمونسٹوں کا خوف دلائے گا تو وہ شاہ کو بچانے کے ایران میں فوجیں اُتار دے گا۔ مگر امریکا نے حسب عادت اپنے دوست کا ساتھ چھوڑ دیا اور شاہ کو مشورہ دیا کہ وہ ایران چھوڑ دے۔خمینی یکم جنوری ١٩٧٩ء کو پیرس سے تہران پہنچے تو دس لاکھ کے ہجوم نے ان کا خیر مقدم کیا۔خمینی نے ڈاکٹر مہدی بازرگان کو وزیر اعظم مقرر کیا۔البتہ سارے اختیارات اپنے پاس رکھے۔
Inqilab e Iran
آئین کی دفعہ ١١٠ کے تحت عدالت عالیہ کے ارکان، سپہ سالار اور چیف آف اسٹاف کی تقرری اور برطرفی، پاسداران کے سربراہ، قومی تحفظ کی مجلس اعلیٰ کی تشکیل، بری بحری اور فضائی افواج کے سپہ سالاروں، جنگ وصلح کا اختیار، صدر کے انتخاب کی توثیق شامل ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ دنیا میں جمہورتوں کا دور ہے اس لیے ایران کے لوگوں نے بھی شہنشاہت کو ختم کر کے جمہوری دور میں قدم رکھا۔ جیسا کہ شروع میں بیان کیا ہے کہ کتاب کے مصنف مارکسی کٹر کیمونسٹ ہیں۔ شاید وہ خمنی سے اپنی سوچ کے مطابق احکامات چاہتے ہیں۔ لہٰذاخمینی سے اختلاف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خمینی نے قومی تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا آمرانہ طرز عمل اختیار کیا۔جن کیمونسٹوں نے انقلاب کی حمایت کی آج ان کا شیرازہ بکھر گیا۔ شایدوہ بھول گئے کہ جس طرح قائد اعظم کی تحریک پاکستان میں اپنے مطلب کے لیے کیمونسٹ شامل ہوئے تھے اسی طرح خمینی کے ایرانی انقلاب میں بھی ایسا ہی تھا۔
خمینی نے قم پہنچ کر اسلامی انقلابی کونسل قائم کی۔ حزب اللہ جو ہٹلر کے طوفانی دستوں کے نمونے پر بنائی گئی تھی کی سرپرستی قبول کی۔ ان کے بقول خمینی نے اقتدار آتے ہی عورتوں پر حملہ کیا اور کہا کہ چادر اُڑیں۔تہران یونیورسٹی میں ایک لاکھ سے زیادہ لڑکوں اور لڑکیوں کے اجتماع میں مطالبہ کیا گیا کہ کابینہ میں تمام جماعتوں کےنمایندوں کو شریک کیاجائے تو خمینی نے ان کا مطالبہ رد کرتے ہوئے کہا کہ طلبا بے دین اور اسلام دشمن ہیں۔نسلی اقلیتوں کے مطالبات بھی نہیں مانے گئے۔ کردوں کے خلاف ایرانی فوج اور حزب اللہ استعمال کی گئی۔اپریل میں ریاست کی نوعیت کاسوال اُٹھا خمینی نے فتویٰ صادر کیا کہ رائے دہندگان سے فقط یہ دریافت کیا جائے کہ وہ اسلامی ری پبلک کے حق میں ہیں کہ نہیں۔ پریس کی آزادی بھی سلب کر لی گئی۔خمینی کو اس بات کی فکر نہیں کہ لوگوں کو روٹی مل رہی ہے کہ نہیں بس ان کو اسلامی سزائیں دینے کی فکر ہے۔
ملکی آئین میں شعیہ مذہب کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے سربراہی اور قیادت” ولایت فقیہ” کے سپرد ہو گی۔ اس سے شاہ سے بھی زیادہ اختیارات خمینی کو حاصل ہو گئے۔ پاسداران انقلاب نے حقوق مانگنے پر کردوں کاقتل عام نے کیا۔ایران پھر امریکا کی گودمیں چلا گیا ہے۔ ان حالات میں دیکھتے ہیں ایران ملائیت پر قائم رہتا ہے یا آگے بڑھتاہے۔وہ فرماتے ہیں شعیہ مذہب در اصل احتجاجی مذہب ہے۔ جو امام حسین کی شہادت کے بعد ایک مذہبی فرقہ بن گیا۔ایرانی انقلاب کو اپنے ظلم کی وجہ سے سب سے زیادہ بدنام پاسداران انقلاب نے کیا۔ صاحبو! یہ خیالات ہیں ایک مارکسی کیمونسٹ جناب سبطِ حسن جو انہوں نے اپنی کتاب” انقلاب ایران” میں قلم بند کئے ہیں۔ جس کو ہم نے اپنے کالم میں آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔ رائے قائم کرناآپ کا حق ہے اس حق کو ضرور استعمال کیجیے۔ اللہ حافظ۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان