سیدنا ابوبکر صدیق تعلیمِ اسلام کے زندہ پیکر اور اخلاقِ نبویۖ کی تصویر تھے سوا دو سال کی دورِ خلافت کے دوران سیدنا ابوبکر صدیق نے اسلام کی سربلندی کے لیے تاریخ عالم کی بے نظیر گراں قدر خدمات سر انجام دیں آپکی دینی و مذہبی خدمات تاریخِ اسلام کا روشن و قابلِ افتخار باب ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے دور خلافت میں لوگوں کو ایمان اور انصاف کی ہدایت کی آغازِ اسلام سے رسول اکرم ۖ کے وصال تک ہر مرحلے پر حضرت ابوبکر صدیق نے آنحضرت ۖ کی رفاقت کی سیدنا ابوبکر صدیق کی دین اسلام اور تحفظ ناموس رسالت کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں قرآن مجید کی کتابی شکل میں تدوین بھی سیدنا ابوبکر صدیق کا عظیم ترین کارنامہ ہے انہوںنے مختلف لکھے ہوئے اجزاء اور حفاظ قرآن کے ذریعے قرآن کی سورتوں کو جمع کر کے کتابی صورت میں مدون کیا ۔ رسول اللہ ۖ کے وصال کے بعد بہت سارے فتنوں نے یک دم سر اٹھا لیا جن کا حضرت ابوبکر صدیق نے انتہائی بہادری اور حکمت عملی کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق کا دور خلافت قیامت تک آنے والے حکمرانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے دیرینہ دوست اور سفر و حضر کے ساتھی تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان کیا۔ تو سب سے پہلے آپ کو یہ شرف حاصل ہوا۔ کہ آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ صرف مالی تعاون کیا۔ بلکہ ہر مشکل وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاون و مددگار رہے۔ ہجرت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے۔ تمام غزوات میں آپ شریک ہوئے ، اور یہ حقیقت ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشیر اول تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بہت سے فضائل و مناقب بیان فرمائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر فی الجنة ( ترمذی )” ابوبکر جنت میں ہیں۔ اور یہ بھی فرمان نبوی ہے۔
میری امت میں سے میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے ۔” دو میں سے دوسرا جب غار میں اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا ، کہ غمگین مت ہو بے شک خدا ہمارے ساتھ ہے۔ پھر اللہ نے اس پر سکینہ نازل فرمایا۔ ” جمہور ائمہ کرام اور مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ صاحب سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی یہی قول ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” حقوق صحبت کی ادائیگی اور مال خرچ کرنے میں تمام لوگوں سے بڑھ کر احسان مجھ پر بلاشبہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے۔ ” پھر ارشاد فرمایا : ” اگر میں اپنے رب کے سوا کسی اور کو خلیل بناتا ، تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بناتا۔ ” ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” تم غار میں میرے رفیق تھے اور حوض کوثر پر میرے رفیق ہوگے۔ ” جامع ترمذی میں امام ترمذی نے اور تاریخ الخلفاء میں امام سیوطی رحمہ اللہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے۔
کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہم سب کے سردار اور ہم سب سے بہتر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ پیارے تھے۔ غزوہ تبوک رجب9 ہجری میں پیش آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ کے لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے چندہ کی اپیل کی۔ ہر صحابی نے اپنی طاقت کے مطابق اس غزوہ کے لئے مالی تعاون کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : جس وقت غزوہ تبوک کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی تعاون کی اپیل کی۔ اس وقت میرے پاس بہت مال تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ سکتا ہوں تو وہ یہی موقع ہے۔ چنانچہ میں گھر گیا۔ اور اپنا نصف مال لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔
Hazrat Muhammad PBUH
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا۔ عمر رضی اللہ عنہ ! اپنے اہل و عیال کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ میں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نصف مال آپ کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا ہے۔ اور نصف مال اپنے اہل و عیال کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔ اس کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ ان کے پاس جو کچھ تھا۔ وہ سب لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے اہل و عیال کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو ؟ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے ان کے لئے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یقین ہو گیا کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کبھی بھی بازی نہیں لے جا سکتا۔ علامہ اقبال نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس قول کو اس شعر میں نظم کیا ہے۔ پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور میں جھوٹے نبی پیدا ہو چکے تھے۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال فرمایا تو کئی اور فرقے اسلام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک تو جھوٹے مدعیان نبوت تھے۔ ان کے علاوہ ایک گروہ ایسا پیدا ہوا۔ جس نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا۔ اور ساتھ ایک اور گروہ سامنے آیا۔ جنہوں نے دین اسلام سے انحراف کیا۔ یعنی مرتدین اسلام۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے یہ بڑا سخت وقت تھا۔ آپ نے ان سب فتنوں کا بڑی بہادری ، شجاعت اور فہم و بصیرت سے مقابلہ کیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ ” ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے حالات میں گھر گئے تھے۔ کہ اگر اللہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہم ہلاک ہو جاتے۔
” حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت سوا دو برس ہے۔ اور اس قلیل مدت میں آپ نے جو عظیم الشان کارنامے انجام دئیے۔ ان کی مثال تاریخ اسلام میں مشکل ہی سے ملے گی۔ اس قلیل مدت میں انہوں نے جو عظیم الشان کارنامے انجام دئیے۔ ان کا حال پڑھ کر انسان ورطہ حیرت میں غرق ہو جاتا ہے۔ انہیں اپنے دور خلافت کا بیشتر حصہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے نمٹنے میں صرف کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود وہ ملکی نظم و نسق سے غافل نہیں رہے فی الحقیقت انہوں نے اپنی قوت ایمانی ، تدبر و فراست اور عزم و ہمت کی بدولت نوزائیدہ خلافت اسلامیہ کو اتنی مستحکم بنیادوں پر قائم کر دیا۔ جس پر ان کے اولوالعزم جانشین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک عظیم الشان تعمیر کر دی۔ علم و فضل کے اعتبار سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑے جامع الکمالات تھے۔
تفسیر ، حدیث ، علم تفسیر ، علم الانساب ، شعر و سخن ، حکایت ، تحریر و کتابت میں انہیں مہارت تامہ حاصل تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عظیم الشان کارنامہ ” جمع قرآن مجید ” ہے۔ موطا امام مالک میں ہے کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ قرآن مجید کے تمام اجزاء کو جمع کر کے ایک کاغذ پر یک جا جمع کرنے کا اہتمام کریں۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔ 7 جمادی الثانی 13 ہجری کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے غسل کیا۔
اس دن سردی بہت زیادہ تھی۔ جس کی وجہ سے بخار ہو گیا۔ 15 دن مسلسل بخار رہا۔ 22 جمادی الثانی 13 ہجری بروز دو شنبہ مغرب اور عشاء کے درمیان انتقال کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اور حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کئے گئے۔ وفات کے وقت عمر 63 سال تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کی وفات پر ارشاد فرمایا : ” آج خلافت نبوت کا انقطاع ہو گیا۔ ” حکمران اگر مخلص ہیں اور وطن عزیز کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست اور قائداعظم اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو انہیں خلفا راشدین کے طرز حکمرانی کو اپنانا ہوگا،عوامی مطالبات کے باوجود حکومت کا یوم وفات ابوبکر صدیق پر عام تعطیل کا اعلان نہ کرنا قابل افسوس ہے۔ صحابہ کرام کے بغیر دین اسلام کے حقیقی پیغام کو سمجھنا ناممکن ہے ،جس طرح سرور کونین ۖدوجہانوں کے سردار ہیں اسی طرح صحابہ کرام میں خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر صحابہ کرام کا رتبہ اور مقام ہے ،اللہ تعالی نے آپ کوبہت سی صفا ت اور اعلیٰ مراتب سے نوازا ہے۔
سیدنا صدیق اکبر محسن انسانیتۖ کے سب پہلے رفیق ،سب سے پہلے خلیفہ اور خلافت راشدہ کے پہلے چراغ ہونے کے ساتھ حضور اکرم ۖکے ساتھ مدینہ کے سفرکے دوران غار حرا اور روضہ مبارک میں بھی قبر مبارک ساتھ ہی ہے۔ حکومت پاکستان سے ہرپاکستانی کا مطالبہ ہے کہ خلفائے راشدین کے ایام وفات پر بھی عام تعطیل کا اعلان کیاجائے ،درسی کتب میں ان کے حالات زندگی کے حوالے سے مضامین شامل کیے جائیں،سرکاری سطح پر تقاریب کا اہتمام کیا جائے تاکہ نوجوان نسل اسلام کے عظیم سپوتوں کے حالات زندگی سے واقف ہوں۔